ہمارے خاندان میں ایک میاں بیوی کی طلاق ہو گئی ہے، ایک دن میں اور میری بھابھی بیٹھے ان کی طلاق کا ذکر کر رہے تھے، میں نے کہا کہ لڑکے کے ساتھ لڑکی والوں نے بہت زیادتی کی ہے، لڑکے کے والد کو بھی گالیاں دی ہیں اور پانچ لاکھ روپے بھی لیے ہیں، اب یہ ساری باتیں سچ ہیں اور ان میں کچھ جھوٹ نہیں، لیکن جب بھابھی کے بیٹے آئے تو کہنے لگے کہ چچی! یہ باتیں چھوڑ دو، یہ غیبت ہے، جب کہ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ لڑکی والوں نے اچھا کیا جو پانچ لاکھ ان سے لیے۔
پھر میرے ساتھ بحث شروع کر دی، مجھے آپ سے یہ جاننا ہے کہ کسی کی برائی ہو رہی ہو اور میں اس گفتگو میں کسی سے متعلق اگر سچ بات کہوں تو کیا یہ غیبت ہے؟ راہ نمائی فرمائیں۔
غیبت کا مطلب ہے کہ کسی کی پیٹھ پیچھے اُس کا ایسا تذکرہ کرنا جو اس کے سامنے کیا جائے تو اسے برا لگے، خواہ وہ بات سچ ہو اور اُس شخص میں موجود بھی ہو، اگر وہ عیب اس میں موجود ہی نہ ہو تو اسے بہتان کہتے ہیں، جو غیبت سے بھی بڑا گناہ ہے۔
اب صورتِ مسئولہ میں سائلہ اور اُس کی بھابھی چونکہ لڑکے اور لڑکی والوں کا ایسا تذکرہ کر رہی ہیں کہ اگر یہ تذکرہ اُن کے سامنے کیا جائے تو اُن کو بُرا لگے گا، اس لیے اِس کو غیبت شمار کیا جائے گا اور اس سے بچنا ضروری ہے، ہاں اگر کوئی لڑکے والے ان کے بارے میں معلومات کریں تو ان کو حقیقت بتانا منع نہیں ہوگا۔
فتاوٰی شامی میں ہے:
"وفيها: الغيبة أن تصف أخاك حال كونه غائبا بوصف يكرهه إذا سمعه. عن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال قال - عليه الصلاة والسلام -، «أتدرون ما الغيبة؟ قالوا الله ورسوله أعلم قال: ذكرك أخاك بما يكره قيل: أفرأيت إن كان في أخي ما أقول؟ قال: إن كان فيه ما تقول اغتبته، وإن لم يكن فيه فقد بهته» وإذا لم تبلغه يكفيه الندم وإلا شرط بيان كل ما اغتابه به".
(كتاب الأضحیة ،فصل في البیع ،جلد:6،صفحہ:410، طبع: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144311100923
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن