بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیبت کرنے پر والدین کو سختی سے ٹوکنے کا حکم


سوال

گھر والے غیبت کرتے ہیں(یعنی کسی شخص کی سچی خامیاں اس کی پیٹھ پیچھے بیان کرنا) اگر سمجھاؤ تو خفاء ہونے لگتے ہیں احادیث کی کتاب سے تعلیم بھی کرتے ہیں ،غیبت کے گناہ کا بھی بتایا ،لیکن پھر بھی ان سے غیبت ہو ہی جاتی ہے تو ایسی صورت میں کیا کروں جب وہ کسی کی غیبت کریں تو ان کی مجلس سے اٹھ جاؤں؟ اور میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ والدین بہنیں بھائی ناراض ہو مجھ سے ، اکثر دینی اصلاح کرنے پر خفاء ہونے لگتے ہیں جب وہ خفاء ہوتےہیں تو  مجھے اپنی زندگی ویران سی لگتی ہے۔  راہ نمائی فرمائیں مجھ گناہ گار کی۔

جواب

واضح رہے کہ غیبت کرنے کی طرح غیبت سننا بھی گناہ ہے، لہٰذا آپ کو چاہیے کہ جب آپ  کے والدین کسی کی غیبت شروع کریں تو بجائے سختی اور بے ادبی سے ان کو ٹوکنے کے حکمت، بصیرت اور ادب کے ساتھ ان کو غیبت سے روکنے کی کوشش کریں، مثلاً جو بات چل رہی ہو غیر محسوس طریقے سے اس بات کا موضوع بدل دیں؛ تاکہ والدین کی بے ادبی بھی لازم نہ آئے اور غیبت سننے سے بھی بچ جائیں،لیکن اگر کبھی غیبت کو روکنے کی قدرت نہ ہو تو پھر کسی کام کے بہانے سے اس مجلس سے اٹھ جانا چاہیے جس میں غیبت ہو رہی ہو، بہرحال خلاصہ یہ ہے کہ والدین کے ساتھ اونچے لہجے میں یا سختی اور بے ادبی کے ساتھ بات کرنا یا بحث  کرنا جس سے ان کی دل آزاری ہو بالکل بھی درست نہیں ہے، اور غیبت سننے سے پرہیز کرنا بھی بہت ضروری ہے، اس لیے ایسا طرزِ عمل اپنانا چاہیے کہ والدین کی دل آزاری بھی نہ ہو اور غیبت کے گناہ سے بھی حفاظت ہوجائے۔

قرآنِ مجید میں ہے:

"{وَاِنْ جٰهَدٰكَ عَلٰى اَنْ تُشْرِكَ بِیْ مَالَیْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَاتُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا}."[لقمان: 15]

ترجمہ:" اور اگرتجھ  پر وہ دونوں اس بات کازورڈالیں کہ تومیرے ساتھ کسی چیزکوشریک ٹہرائے جس کی تیرےپاس کوئی دلیل نہ ہو توتو ان کا کہنانہ ماننا اور دنیا میں ان کے ساتھ خوبی کےساتھ بسرکرنا۔" (بیان القرآن)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ نافرمانی کے کاموں میں والدین کی اطاعت کی تو ہرگز اجازت نہیں ہے، لیکن دنیاوی نظم میں ان کے ساتھ سلوک اچھا رکھنا بھی ضروری ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100751

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں