میں کینیڈا میں رہتی ہوں ، یہاں چاند کا فیصلہ تین طریقوں سے کیا جاتا ہے:
1. رؤیت ھلال کمیٹی جو ھمارے شہر ٹورنٹو میں چاند دیکھ کے شھادت پر فیصلہ کرتی ہے۔
2. کریسنٹ کمیٹی جو پورے کینیڈا اور امریکا میں کہیں بھی چاند نظر آنے پر فیصلہ کرتی ہے۔
3. الہدی والے جو کیلکولیشن کا طریقہ استعمال کر کے پہلے ہی بتا دیتے ہیں کب روزہ یا عید ہوگی.
ان تینوں میں سے کون ساطریقہ ٹھیک ہے؟
1،2.کسی بھی ملک میں رہنے والے مسلمان چانددیکھ کررمضان اورعیدکریں؟ یادوسرے ملک کی رؤیت پراعتبارکرلیں ؟اس مسئلہ کوفنی اعتبارسے ’’اختلافِ مطالع‘‘ معتبر ہونے یا نہ ہونے، سے تعبیر کیا جاتاہے۔ اس سلسلہ میں راجح قول یہی ہے کہ قریبی ملکوں اورشہروں میں جو ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں اختلافِ مطالع کااعتبارنہیں، بلکہ ایک مقام پرنظرآنے والاچاند دوسرے قریبی شہروں اورپڑوسی ملک کے لیے بھی حجت ہے۔البتہ اگر کوئی ملک اس مقام سے کافی دور اور فاصلے پرواقع ہو جہاں چاند نظر آیا ہے،تو اس صورت میں اختلاف مطالع کااعتبارہوگا، یعنی دوسرے ملک کے لیے الگ رؤیت کااعتبارہوگا۔وہاں کے باشندوں کوچاہیے کہ چانددیکھ کررمضان اورعیدکریں۔ اس قول کو علامہ زیلعی،علامہ کاسانیؒ نے ترجیح دی ہے،اوراکابرین دیوبندمیں سے علامہ انورشاہ کشمیریؒ،علامہ شبیراحمدعثمانی،مفتی محمدشفیع عثمانیؒ اورعلامہ سیدمحمدیوسف بنوری ؒ بھی اسی کے قائل تھے۔ معارف السنن میں حضرت بنوری رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ہر پانچ سو میل کی مسافت پر مطلع بدل جاتا ہے۔
اسی قول کی مؤیدروایت ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:
’’کریب کہتے ہیں: ام فضل بنت حارث نے مجھ کو امیر معاویہ کے پاس شام بھیجا، کریب کہتے ہیں: میں شام گیا اور ان کا کام پورا کیا، اسی اثنا میں رمضان آگیا، پس ہم نے جمعہ کی شب چاند دیکھا، پھر میں رمضان کے آخر میں مدینہ واپس آیا تو ابن عباس نے مجھ سے چاند کا ذکر کیا اور پوچھا کہ تم نے کب چاند دیکھا تھا؟ میں نے کہا: جمعہ کی شب کو، ابن عباس نے فرمایا: تم نے خود دیکھا تھا؟ میں نے کہا: لوگوں نے دیکھا اور روزہ رکھا،امیر معاویہ نے بھی روزہ رکھا۔ ابن عباس نے فرمایا: ہم نے تو ہفتے کی رات چاند دیکھا تھا؛ لہذ اہم تیس روزے رکھیں گے یا یہ کہ عیدالفطر کا چاند نظر آجائے ۔کریب کہتے ہیں: میں نے کہا: کیا آپ کے لیے امیر معاویہ کا چاند دیکھنا اور روزہ رکھنا کافی نہیں؟ ابن عباس نے فرمایا: نہیں، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح حکم دیا ہے‘‘۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ ہر شہر والوں کے لیے انہیں کا چاند دیکھنا معتبر ہے۔
مذکورہ بالاتفصیل کی روشنی میں کسی بھی ملک میں بسنے والوں مسلمانوں کو چاہیے کہ رمضان اور عید کا مدار چاند کی رؤیت پر رکھیں، اگرکینیڈا میں مطلع صاف ہوابرآلود نہ ہو،اورچانددیکھنے میں کوئی دشواری بھی نہ ہوتو بجائے کسی دوسرے ملک کی رویت پراعتمادکرکے روزہ رکھنے کے خودکینیڈاکے رہنے والوں کوچانددیکھ کررمضان اورعیدکرنی چاہیے۔ جیساکہ آپ نے نمبر 1 میں لکھا ہے ۔لہذااگر آپ کے قریبی علاقے ٹورنٹو میں بنائی گئی کمیٹی باقاعدہ چاند دیکھنے کا اہتمام کرتی ہے، تو آپ کا اس کے اعلان کے مطابق رمضان اور عید کرنا درست ہے۔
اوراگرمطلع صاف نہ ہوابرآلودہوجیساکہ بعض ممالک میں ہوتاہے،اورچانددیکھنے میں دشواری ہواس صورت میں شرعی حکم یہ ہے کہ کینیڈا کے قریب ترین جوملک ہوجہاں شرعی ضوابط کے مطابق چانددیکھنے کااہتمام کیاجاتاہووہاں چاندنظرآجانے اوروہاں کی خبرکینیڈا پہنچنے پروہاں کے مسلمانوں کورمضان اورعیدکرنی چاہیے۔
3. اسلامی عبادات مثلاً روزہ، حج ، زکاۃ وغیرہ کا تعلق قمری مہینہ سے ہے، اور خصوصاً رمضان المبارک کی ابتدا اور انتہا چاند دیکھنے پر موقوف ہے، ارشادِ باری تعالی ہے : { فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ} [البقرة: 185] اور اس کے لیے رسول اللہ ﷺ نے ایک آسان اور عام فہم طریقہ بتادیا کہ چاند دیکھنے پر روزہ رکھو ، اور چاند دیکھنے پر افطار کرو، تاکہ ایک عام فہم،سادہ لوح مسلمان کے لیے بھی فرائض کی ادائیگی آسان ہو، لہذا روزہ اور عید کا مدار چاند کی رؤ یت پر ہے، یعنی اگر چاند نظر آئے تو رمضان شروع ہونے کا حکم ہوگا، اور چاند نظر نہ آئے تو رمضان کا آغاز نہیں ہوگا، یہی حکم عید کا بھی ہے۔ خواہ آسمان ابر آلود ہونے کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے، اور فلکیات کے قواعد کے مطابق بادلوں کے پیچھے اس کا وجود یقینی ہو، تب بھی ظاہری رؤیت کا اعتبار کیا جائے گا۔لہٰذا اس کو پہلے سے کلینڈر وغیرہ بناکر متعین نہیں کیا جاسکتا۔اس لیے پیشگی کلینڈر بناکر اس کے مطابق رمضان یا عید کرنا درست نہیں بلکہ شرعی طریقہ کے خلاف ہے۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109202911
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن