بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غازی عباس کا علم پاک دینے کی نذر کا حکم


سوال

اگر کوئی ایسی منتیں محرم کے دنوں کے حوالے سے مان لی جائے جن کو بعد میں کسی وجہ سے پورا کرنا ممکن نہ ہو، تو اس صورت میں کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا راہ نمائی فرمائیں:

1۔جیسے کہ میری جب تک فلاں شخص سے شادی نہیں ہوجاتی ،تو میں نے فلاں امام بارگاہ میں ہر سال 9 محرم کو جا کر غازی عباس کا علم پاک دینا ہے ،اور بعد میں کسی بھی وجہ سے یہ منت پوری نہ کر سکے تو کیا حکم ہے؟

2 ۔ہر سال محرم میں کالے کپڑے پہننے ہیں اور ننگے پاؤں رہنا ہے جب کہ بعد میں اس کو پورا نہ کر سکتے ہوں تو کیا حکم ہے؟

3۔ اور اگر کوئی  کسی بیماری سے شفا کے لیے علم پاک مان لے کہ ہر سال جا کر دینا ہے لیکن بعد میں اس کو پورا  کرنے کی توفیق  نہ ہو تو کیا حکم ہے؟

4۔اور اگر کوئی  ایسی منت جو ہر سال کے کسی خاص دن(جیسے نو محرم) کے لیے مانی گئی ہو اور مخصوس ایام میں نو محرم آ جائے اس کو پاک ہونے پر پورا کر دیا جائے تو کیا وہ درست مانی جائے گی ؟یا اس کا کوئی کفارہ ہوگا؟ برائے کرم اوپر والے سوالات میں راہ رہنمائی فرمائیں کہ اس طرح کی منتیں توڑنے کا کیا کفارہ ہے؟ 

جواب

واضح رہے  كہ نذر كے  لازم ہونے كے ليے اس ميں دو شرائط كا پايا جانا ضروری ہے:

(الف)۔ جس چیز کی نذر مانی جاۓ وہ  وہ قربت  اور عبادت مقصودہ ہو(یعنی بذات خود عبادت ہو)، جیسے کہ  نماز ، روزہ، زکوۃ، صدقہ، حج، اور اعتکاف وغیرہ،نیز عبادت غیر مقصودہ نہ ہو ( یعنی کسی عبادت کا ذریعہ نہ ہو)، جیسے کہ وضو،جہاد وغیرہ۔

(ب)۔ جس چیز کی نذر مانی جاۓ اس کی جنس کی کوئی بھی چیز فرض یا کم از کم واجب ہو، فرض کی مثال جیسے کسی نے  دس دن روزہ رکھنے کی نذر مانی ،تو اس پر  دس دن کے روزے رکھنا لازم ہے کیوں کہ  روزے کی جنس سے رمضان کے روزے فرض ہے، واجب کی مثال: جیسے کسی شخص جانور ذبح کرنے کی نذر مانی تو اس پر جانور ذبح کرنا لازم ہوگا، کیوں کہ اس جنس سے قربانی واجب ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں سائلہ نے  جن چیزوں کی نذ رکا  استفتاء میں ذکر کیا ہے ،وہ نہ ہی عبادت مقصودہ ہے، اور  نہ ہی ان چیزوں کی جنس  میں سے کوئی عبادت لازم ہے،بلکہ یہ تمام امور  بدعات اور محض خرافات پر مشتمل ہیں، لہذا اگر کسی نے ان چیزوں میں سے کسی چیز  کی نذر مانی ہو تو ایسی  نذر شرعاً منعقد ہی نہیں ہوئی ، چناں چہ نہ تو اس نذر کو پورا کرنا لازم ہے اور  نہ ہی  کسی قسم کا کفارہ دینا لازم  ہے، بلکہ نذر پورا کرسکنے کی صورت میں بھی اس پر عمل کرنا درست نہیں ہے۔ 

1/2/3۔کیوں کہ  نذر ہی  شرعاً منعقد نہیں ہوئی، لہذا مذکورہ تمام باتوں  کو  انجام نہ دینے کے سبب نذر ماننے والے پر  قضا یا  کفارہ کی ادائیگی  بھی شرعاً لازم نہیں ہے۔

4۔ 9 محرم کے دن  کے حوالے سے کس چیز کی نذر  مانی تھی ، اس کی تفصیل بیان کریں ،پھر جواب دیا جاۓ گا۔

بدائع الصنائع  میں ہے:

"(ومنها) ‌أن ‌يكون ‌قربة ‌مقصودة، فلا يصح النذر بعيادة المرضى وتشييع الجنائز والوضوء والاغتسال ودخول المسجد ومس المصحف والأذان وبناء الرباطات والمساجد وغير ذلك وإن كانت قربا؛ لأنها ليست بقرب مقصودة ويصح النذر بالصلاة والصوم والحج والعمرة والإحرام بهما والعتق والبدنة والهدي والاعتكاف ونحو ذلك؛ لأنها قرب مقصودة."

(كتاب النذر،بيان ركن النذر وشرائطه، 82/5، ط: سعيد)

الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں ہے:

"ويشترط ‌لصحة ‌النذر ‌سبعة شروط: الأول أن يكون من جنس المنذور فرض أو واجب اصطلاحي على الأصح كالصوم والصلاة والصدقة، فإذا نذر أن يصوم تطوعاً فإنه يجب عليه الوفاء لأن الصوم من جنسه فرض وهو صوم رمضان."

(‌‌كتاب اليمين،‌‌مباحث النذر،‌‌أقسام النذر131/2،دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144501100308

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں