بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غصب شُدہ زمین پر مسجد یا مدرسہ بنانے کے متعلق چند ضروری احکام


سوال

1۔ مغصوبہ زمین پر غُنڈہ گردی کرکے مسجد یا مدرسہ بنانا شرعاً کیسا ہے؟

2۔ اس مسجد یا مدرسہ کو مسجد مدرسہ کا حکم حاصل ہوگا یا نہیں؟

3۔ اس مسجد میں نماز پڑھنے یا مدرسے میں بچوں کو دینِ اسلام کی  تعلیم دینا کیسا ہے؟

4۔ اس مسجد یا مدرسہ میں معاونین کا تعاون کیسا ہے؟ جبکہ معاونین کو معلوم ہو کہ یہ مسجد یا مدرسہ مغصوبہ زمین پر بن رہا ہے۔ نیز اس مسجد یا مدرسہ سے مقصُود دُوسری مسجد یا دُوسرا مدرسہ بند کرنا ہو۔

جواب

واضح رہے کہ شرعی مسجد ، یا مدرسہ کی جگہ خالص اللہ کے لیے وقف  ہوتی  ہے اور جگہ وقف کرنے کی ایک شرط اس جگہ کا مالک ہونا بھی ضروری ہے۔ صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ زمین کسی کی مملوکہ ہو اور غاصب نے غصب کرکے اس  زمین پر مسجد یا مدرسہ بنایا ہو تو ایسا کرنا شرعاً جائز نہیں ، اس لیے کہ  غاصب  مغصوبہ زمین کا مالک نہیں ہوتا، لہذا غصب شدہ زمین میں مسجد یا مدرسہ  بنانے سے وہ مسجد شرعی ، اور مدرسہ وقف نہیں کہلائے گا۔ نیز زمین غصب کرنا اور اس پر مسجد یا مدرسہ  بنانا گناہ ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں زمین غصب کرنے والے کے بارے میں وعید آئی ہے ۔

مغصوبہ زمین پر مسجد یا مدرسہ   کو مسجد شرعی اور مدرسہ  کا حکم حاصل نہیں ہوگا۔

ایسی مسجد میں نماز پڑھنا مکروہ ہے، البتہ نماز ادا ہوجائے گی، اسی طرح  ایسے مدرسہ میں بچوں کو تعلیم دینا  بھی کراہت سے خالی نہیں ہے۔

برتقدیر صحت  اگر واقعۃً  معاونین کو یہ معلوم ہو کہ مذکورہ مسجد اور مدرسہ مغصوبہ زمین پر بن رہا ہے ، تو اس میں تعاون کرنا درست نہیں ہے ، خصوصاً  بقولِ سائل اس مسجد اور مدرسہ کے بنانے سے مقصد دوسری شرعی آباد  مسجد  اور مدرسہ کو   بند کرنا اور  ضرر پہنچانا مقصود ہے ، اگر واقعۃً ایسا ہی ہے جیسا سائل نے ذکر کیا ہے، تو اس جگہ کی تعمیر  میں تعاون کرنا ثواب کی  بجائے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہوسکتا ہے ۔

 حدیث شریف  میں ہے :

"قال ابن نمير: سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: "من أخذ شبرا من الأرض ظلما طوقه يوم القيامة إلى ‌سبع ‌أرضين"، قال ابن نمير: "من ‌سبع ‌أرضين".

(مسند أحمد،مسند العشرۃ المبشرۃ،مسند سعید بن زید، ج:2، ص:291، ط:دار الحدیث،القاھرۃ)

ترجمہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص (کسی کی) بالش بھر زمین از راہ ظلم لے گا ،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں بطور طوق ڈالی جائے گی۔"(مظاہر حق)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وشرطه شرط سائر التبرعات) أفاد أن الواقف لا بد أن يكون مالكه وقت الوقف ملكا باتا ولو بسبب فاسد".

 (کتاب الوقف، ج:4، ص:340، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"حتى لو وقف الغاصب المغصوب لم يصح، وإن ملكه بعد بشراء أو صلح، ولو أجاز المالك وقف فضولي جاز".

 (کتاب الوقف، ج:4، ص:341، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"وفي الواقعات: بنى مسجدًا على سور المدينة لاينبغي أن يصلي فيه؛ لأنه من حق العامة فلم يخلص لله تعالى كالمبني في أرض مغصوبة".

 (کتاب الوقف، ج:4، ص:381، ط:سعید)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیہ  میں ہے:

"يجب بناء المساجد في الأمصار والقرى والمحال - جمع محلة - ونحوها حسب الحاجة وهو من فروض الكفاية".

(المادۃ:الوقف، ج:37، ص:195، ط:وزراۃ الاوقاف و الشئون الاسلامیۃ ۔ الکویت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الصلاة في أرض مغصوبة جائزة، و لكن يعاقب بظلمه فما كان بينه وبين الله تعالى يثاب وما كان بينه وبين العباد يعاقب".

 (کتاب الوقف، ج:1، ص:109، ط:دارالفکر)

الجوهرة النيرة على مختصر القدوری میں ہے:

"وإن صلى في ثوب مغصوب أو توضأ بماء مغصوب أو صلى في أرض مغصوبة فصلاته في ذلك كله صحيحة".

(کتاب الوقف، باب المسجد، ج:1، ص:46، ط:المطبعۃ الخیریة)

مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

"و" تكره في "أرض الغير بلا رضاه."

 (کتاب الصلوۃ، ص:130، ط:دارالکتب العلمیة)

خیر الفتاوی کے ایک سوال کے جواب میں ہے:

"ان دونوں لڑکیوں کی رضا مندی کے حاصل کیے بغیر مغصوبہ اراضی کو حاصل کرکے اس میں مدرسہ بنانا اور وقف کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔"

(کتاب الوقف، ج:6، ص:344، ط:امدادیہ ملتان)

کفایت المفتی میں ہے:

"حرام مال سے، یا مغصوبہ زمین پر بنائی ہوئی مسجد میں نماز پڑھنا مکروہ ہے

(سوال) جو مسجد ناجائز کمائی سے غیر موقفہ یا مغصوبہ زمین پر بنائی جائے اس میں نماز ادا ہوسکتی ہے یا نہیں؟

(جواب 28) جو مسجد حرام مال سے بنی ہو، یا غصب کی زمین پر ، اس میں نماز پڑھنی مکروہ ہے۔"

(کتاب الوقف، ج:7، ص:51/52، ط:دار الاشاعت، کراچی)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"سوال:(297) ایک شخص نے غیر کی زمین پر کئی سال سے قبضہ کررکھا ہے، اور اس میں کنویں اور مکان بنا رکھے ہیں، اور قبضہ اس کا ازروئے قانون ٹوٹ نہیں سکتا؛ کیا اس زمین کو قابض مذکور وقف کرکے مسجد بنا سکتا ہے یا نہیں؟ (604/1337ھ)

الجواب: اس زمین کو قابض مذکور وقف نہیں کرسکتا، اور وقف کرنا مسجد بنانا اس کا صحیح نہیں ہے۔

کما قال فی الدر المختار و رد المحتار: وشرطه شرط سائر التبرعات الخ قولہ: وشرطه شرط سائر التبرعات) أفاد أن الواقف لا بد أن يكون مالكاً لہ وقت الوقف ملکاً باتاً الخ (شامی)

وفیہ ایضاً: حتى لو وقف الغاصب المغصوب لم يصح، وإن ملكه بعد بشراء أو صلح الخ (شامی)."

(وقف کا بیان، ج:13، ص:290، ط:دارالاشاعت، کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101662

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں