بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1445ھ 18 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غصب


سوال

2001ء سے میں نے ایک کرایہ کی دکان لی اور 2016 ءتک میں اسے  کرایہ پر چلاتا رہا 2016ءکے بعد وہ جگہ میں نے خریدنی چاہی تو  وہ دکان اور اس کے ساتھ مزید جگہ تھی وہ میں نے اور میرے بھائی نے مشترکہ طور پر 27لاکھ میں خریدلی ، 3.5لاکھ میں نے دیے اور 23.5میرے بھائی نے دیے، بعد میں اس مکان میں مزید کام کروایا اور بنوایا،  دکان میں  28لاکھ دس ہزار  میں نے دیے اور 16 لاکھ 20 ہزار بھائی نے دیے اور پانچ منزلہ تعمیر کروایا اور  تمام کام میں نے اکیلے نے کیا اور کاروبار بھی میں نے  چلا کے دیا،  اب بھائی کہہ  رہا ہے یہ دکان اور اس کے علاوہ جتنی جگہ  ہے وہ سب  میری  ہے اور قتل کی دھمکیاں دے رہا ہے ،تھانہ میں کیس کیا میں نے،  لیکن انہوں نے کیس نہیں لیا اور جرگہ دوبار بلوایا، لیکن جرگہ میں نہیں آیا ،اب دکان میں تقریبًا  20  لاکھ  کا سامان پڑا ہےاور میرے بھائی نے اس کو 1تاریخ سے تالا لگایا ہے ، اس میں آئس کریم بنوائی تھی  وہ بھی خراب ہوگئی ۔

اب شریعت کی رو سے بتائیں کہ میں اپنے بھائی کے ساتھ کیا رویہ رکھوں اور ان کا شرعًاایسا کرنا درست ہے یا نہیں ؟ نیز دکان بند کرنے کی وجہ سے جو نقصان ہو ا  ہے وہ کس پرہوگا ؟ نیز بھائی نے مجھ پر  اور میرے بیٹے پر  بھی  تشدد کیا ۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائل کا بیان اگر واقعتًا صحيح اور  درست ہےتو اس صورت ميں دونوں بھائیوں نے دکان کے خریدنے  میں  اور  اس کی  مزید تعمیر  میں  جتنی رقم لگائی ہے  ، شرعًا دونوں بھائی    اپنی اپنی رقم کے  تناسب سے اس دکان میں  شریک ہیں،  اس دکان کا اکیلا مالک نہ تو سائل ہے اور نہ ہی سائل کا   بھائی ہے ، بلکہ دونوں اس دکان میں حصہ دار ہیں   دونوں بھائیوں پر لازم ہے کہ اس معاملہ کو خوش اسلوبی سے حل کریں ،تاکہ کسی فریق کی طرف سے   دوسرے فریق پر  زیادتی نہ ہو ،سائل جب اپنے بھائی کے حصہ کو بھی استعمال کر رہا ہے تو اس کے لیے دوسرے  بھائی  کی اجازت ضروری ہے، بغیر  اجازت دوسرے شریک کی جگہ استعمال کرنا ناجائز ہے ،اگر سائل کا مذکورہ بھائی اس مشترکہ دکان میں کاروبار کرنا چاہے تو اسے اپنے  حصے میں کاروبار  کرنے   کا حق حاصل ہے،  سائل کا روکنا جائز نہیں ،  یا تو بھائی کو راضی کرے یا اس کی جگہ کا کرایہ اسے ادا کرے ،اور  اس کا آئندہ کے لیےاس سے  کرایہ داری کا معاملہ کرے  ،باقی اس بھائی  کی طرف سے دکان کو تالا  لگانے  کی وجہ سے  بھائیوں کا جو نقصان ہوا ہے اس کا ضمان اسی بھائی پر لازم ہے   ۔   

بدائع الصنائع ميں هے :

"للمالك أن ‌يتصرف ‌في ‌ملكه أي تصرف شاء سواء."

(ج:6،ص:264،ط:دارالکتب العلمیہ)

فتاوی ھندیہ میں ہے :

"أما شركة العنان فهي أن يشترك اثنان في نوع من التجارات بر أو طعام أو يشتركان في عموم التجارات ولا يذكران الكفالة خاصة، كذا في فتح القدير."

(ج:2،ص:319،ط: دارالفکر )

فتاوی ھندیہ میں ہے :

"وأما حكمها فصيرورة كل أحد منهما وكيلا عن صاحبه في عقود التجارات ولا يصير كل واحد وكيلا عن صاحبه في استيفاء ما وجب بعقد صاحبه، كذا في المحيط. و لايكون في شركة العنان كل واحد منهما كفيلا عن صاحبه إذا لم يذكرا الكفالة، كذا في فتاوى قاضي خان."

(ج:2،ص:320،ط: دارالفکر )

فتاوی شامی میں ہے :

"و حكمه الإثم لمن علم أنه مال الغير و ردّ العين قائمة و الغرم هالكة و لغير من علم الأخيران."

(کتاب الغصب ،ص:613،ط:دارالکتب العلمیہ)

       فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100029

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں