بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

گھروں میں جا کر اجرت لے کر بچوں کو قرآن کی تعلیم دینا


سوال

گھروں میں جا کر اجرت لے کر بچوں کو قرآن کی تعلیم دینا کیسا ہے؟ جب کہ یہ یقین ہو کہ اگر اس نے گھر جا کر تعلیم نہ دی تو وہ بچے مسجد نہیں جائیں گے اور اسلامی تعلیمات سے یوں ہی ناواقف رہ جائیں گے؟

جواب

پہلے تو یہ  کوشش کرنی چاہیے  کہ  بچوں کے گھر جاکر قرآن پڑھانے کے بجائے بچوں کو اپنے گھر یا مدرسہ بلاکر وہاں ان کو قرآن پڑھایا جائے، تاکہ بچوں کے دل میں قرآنِ کریم کی تعلیم  اور اس کے پڑھانے والے استاذ  کی عظمت باقی رہے،  چوں کہ عام طور سے گھر گھر جاکر قرآن کی ٹیوشن پڑھانے سے لوگوں کے دلوں میں قرآن کے معلم اور قرآنی تعلیم کی عظمت باقی نہیں رہتی؛ اس لیے علمائے کرام نے بلاعذر گھر گھر جاکر قرآن کریم کی ٹیوشن پڑھانے کو پسندیدہ قرار نہیں دیا ہے، لیکن  اگر کسی عذر کی وجہ سے کوئی شخص گھر جاکر قرآن کریم پڑھاتا ہے تو اس کے لیے بچوں کو قرآن پڑھانا اور اس پر اجرت لینا جائز ہے، البتہ اس میں چند باتوں رعایت رکھنا ضروری ہے :

(۱) گھر جاکر قرآن پڑھانے کے دوران اپنا دینی تشخص اور دینی وقار برقرار رکھے اور استغنا کا مظاہرہ کرے۔ کوئی ایسا طرزِ عمل نہ اپنائے جس کی وجہ سے لوگوں کے دلوں سے قرآن پڑھانے والوں کی عظمت و اہمیت ختم ہوجائے، مثلاً ایسا نہ ہو کہ اسے صرف اپنی فیس لینے سے مطلب ہو اور بچے جب چاہیں چھٹی کرلیں،  اور جتنا چاہیں اسے بٹھا کر انتظار کرواتے رہیں، اور خود کھیل کود میں مصروف ہوں، لیکن قاری صاحب کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہو۔ اسی طرح مقررہ مشاہرے کے علاوہ گھر والوں سے صراحتاً یا اشارۃً  سوال نہ کرے۔

(۲)کسی بالغہ یا قریب البلوغ لڑکی کو نہ پڑھائے۔

(۳)لوگوں کے گھر آتے جاتے پردہ کا بہت زیادہ خیال رکھے  اور نگاہوں کی خوب حفاظت کرے کہ کسی اجنبی عورت پر نگاہ نہ پڑ جائے، اور گھر والوں کو بھی تلقین کرے کہ وہ اس کے آنے جانے کے اوقات میں پردہ کا خیال رکھا کریں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 55 ):

"(و) لا لأجل الطاعات مثل (الأذان والحج والإمامة وتعليم القرآن والفقه)، ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن والفقه والإمامة والأذان.

 (قوله: ولا لأجل الطاعات) الأصل أن كل طاعة يختص بها المسلم لا يجوز الاستئجار عليها عندنا؛ لقوله عليه الصلاة والسلام : «اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به»، وفي آخر ما عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم  إلى عمرو بن العاص: «وإن اتخذت مؤذناً فلا تأخذ على الأذان أجراً»؛ ولأن القربة متى حصلت وقعت على العامل، ولهذا تتعين أهليته، فلا يجوز له أخذ الأجرة من غيره كما في الصوم والصلاة، هداية. مطلب تحرير مهم في عدم جواز الاستئجار على التلاوة والتهليل ونحوه مما لا ضرورة إليه.

(قوله: ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن إلخ) قال في الهداية: وبعض مشايخنا - رحمهم الله تعالى - استحسنوا الاستئجار على تعليم القرآن اليوم؛ لظهور التواني في الأمور الدينية، ففي الامتناع تضييع حفظ القرآن، وعليه الفتوى اهـ، وقد اقتصر على استثناء تعليم القرآن أيضاً في متن الكنز ومتن مواهب الرحمن وكثير من الكتب، وزاد في مختصر الوقاية ومتن الإصلاح تعليم الفقه، وزاد في متن المجمع الإمامة، ومثله في متن الملتقى ودرر البحار".

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144201200051

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں