بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

غیرمسلم کے پیسے دھوکے سے لے کر ضرورت مند مسلمانوں پر خرچ کرنا


سوال

ایک کام ہے  جس  میں یورپ کے لوگوں سےان کےڈیبٹ کارڈکی معلومات لےکر دھوکے سےان کے سارے اموال نکالےجاتےہیں،اوران کوجونقصان ہوتاہےاس کی تلافی اُن  کی حکومت کرتی ہے،اوریہ ہم اس  لیے کرتے ہیں کہ امریکی اور امریکن اسرائیل کی کھل کر مدد کررہے ہیں۔

اب سوال یہ  ہے کہ کیا ہم اس طرح ان کےمال کولوٹ کراہل فلسطین کی مدد کرسکتےہیں؟

نیزاس کام میں ہمارابھی خرچہ اورصلاحیت وغیرہ استعمال ہوتی ہے،جس کی بنیاد پرہم بھی کچھ رکھناچاہتےہیں کیاشرعاًاس طرح کرنادرست ہےیانہیں؟

جواب

 صورتِ  مسئولہ  میں کسی  غیر مسلم کے ڈیبٹ کارڈ کی معلومات لےکر  دھوکے سے اس  کےپیسے نکالنا  شرعاًغصب  اور چوری کے زمرے میں آتاہے، جوکہ حرام ہے۔   کسی بھی ضرورت مند کی مدد کے لیے حلال اور جائز ذرائع  اختیار کرنا چاہیے۔ اگر سائل نے اس طرح کسی کے پیسے حاصل کیے ہیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ اصل مالکان تک وہ رقم پہنچائے۔ 

بذل المجہود  فی حل سنن ابی داؤدمیں ہے :

"صرح الفقهاء بأن من اكتسب مالاً بغير حق، فإما أن يكون كسبه بعقد فاسد، كالبيوع الفاسدة والاستئجار على المعاصي والطاعات،أو بغير عقد، كالسرقة والغصب والخيانة والغلول، ففي جميع الأحوال المال الحاصل له حرام عليه، ولكن إن أخذه من غير عقد ولم يملكه يجب عليه أن يرده على مالكه إن وجد المالك، وإلَّا ففي جميع الصور يجب عليه أن يتصدق بمثل تلك الأموال على الفقراء."

(کتاب الطهارۃ، باب فرض الوضوء، ج:1، ص: 359،   ط : مرکز الشیخ أبي الحسن الندوي للبحوث و الدراسات الإسلامیة الهند

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602101233

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں