بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

گھریلو پریشانیاں، پریشان کرنے والے خیالات ہوں اور فرائض ادا نہ کر سک رہا ہو


سوال

 میری عمر بتیس سال ہے،  ہم بارہ بہن بھائی ہیں جس میں میرا نمبر گیارہواں ہے۔  میں نے بچپن سے لے کر  اب تک اپنے گھر میں صرف لڑائی جھگڑے  دیکھے۔ والدین کی آپس میں، بہنوں کی بھائیوں سے ، میں نے بہت دفعہ اپنے والدین کو  ہماری منتے  ترلے کرتے دیکھا، اپنے آپ کو خود مارتے دیکھا اور ہمارے آگے ہاتھ  جوڑتے  دیکھا۔ ایک بھائی حافظ تھے، ایک عالم تھے، دونوں کی وجہ سے ہر خوشی غمی میں مذہب آجاتا تھا اور پھر خوشی بھی خراب اور غم بھی اور گالم گلوچ اور ہاتھا پائی۔  پھر ایک بہن نے گھر سے بھاگ کر شادی کر لی۔ اس صدمے سے امی فوت ہو گئیں۔ کچھ مہینوں بعد ابو بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ میں اس وقت  25 سال کا تھا۔ حافظ اور عالم بھائی نے شادی نہیں کی۔ باقی سب بہنوں کی شادی ہو گئی،  جس میں کوئی بھی اپنے گھر میں خوش نہیں۔ میری ابھی شادی ہوئی ہے،  لیکن اپنے  ڈپریشن کی وجہ سے میں اپنی بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم کرنے سے بھی قاصر ہوں،   جاب بھی اچھی نہیں،  شفٹوں کی جاب ہے، بہت زیادہ گالم گلوچ سننی پڑتی ہیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ ان سب واقعات کے بعد میں بہت زیادہ ڈپریشن میں چلا گیا، میں نے بہت کوشش کر لی مجھ سے دینی فرائض ادا نہیں ہوتے ،بہت کوششیں کر لیں  نماز پڑھنے کی، لیکن دو دن سے زیادہ نہیں پڑھی جاتی۔ کوئی سکون نہیں ملتا، ذہن میں بہت خوف ہے، کبھی لڑائی کا، کبھی کسی بہن کا فون، کبھی کسی کا، بس دل کرتا ہے اکیلا لیٹا رہوں، تھوڑا سا چلتا ہوں تو تھک جاتا ہوں۔ دس گھنٹے بھی سو لو ں لیکن نہ چلا جائے گا نہ بیٹھا جائے گا۔ کچھ پیسے جمع کر کے ڈاکٹر کے پاس گیا، اس نے کہا اپنے مسائل حل کرو ،تھکاوٹ دور ہو جائے گی۔ میں کوئی بھی دینی فرض ادا کرنےسے قاصر ہو ں،  نہ نماز پڑھی جاتی ہے اور نہ قرآن۔   مجھے بتائیں میں کیا کروں ؟

جواب

پہلی بات تو یہ ذہن نشین کیجیے کہ اسلام فطری دین ہے، اور خوشی و غمی میں اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے سے انسان کی زندگی میں سکون آجاتا ہے، اور اگر اسلامی  تعلیمات بری محسوس ہوں تو اس کا مطلب ہماری طبیعت فطرت سے ہٹ چکی ہے  اور ہمیں اپنی اصلاح کی ضرورت ہے۔ نیز اسلامی تعلیمات بری محسوس ہونے کی وجہ سے زندگی میں بے سکونی، بے برکتی اور بے چینی آجاتی ہے؛  لہذا آپ کا یہ کہنا کہ " ایک بھائی حافظ تھے، ایک عالم تھے، دونوں کی وجہ سے ہر خوشی غمی میں مذہب آجاتا تھا اور پھر خوشی بھی خراب اور غم بھی "  قابلِ اصلاح ہے۔اور بظاہر آپ کے پریشان رہنے کی بڑی وجہ یہی ہے۔

دوسری  بات یہ ہے کہ  دنیا امتحان کی جگہ ہے، اور دنیوی زندگی میں مختلف حالات کے ذریعہ مسلمانوں کے ایمان کا امتحان ہوتا ہے ۔ مسلمانوں کو اس بات کی تعلیم ہے کہ جو نعمتیں اللہ نے دی ہیں، ان کو شمار کر کے اللہ کا شکر ادا کرے۔ شکر ادا کرنے سے اللہ نعمت کو بڑھاتے ہیں جب کہ شکوے کرنے سے اللہ ناراض ہوتے ہیں اور موجود نعمتوں کی قدر نہ کرنے کی وجہ سے آدمی بے چینی اور بے سکونی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

نیز  جن چیزوں کی یا حالات کی اسے چاہت ہے، لیکن اس کے پاس وہ چیزیں نہیں ہیں یا حالات اس کے موافق نہیں ہیں، ایسی چیزوں کے لیے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اسباب اختیار کرے، اور وہ چیزیں  نہ ملیں تو اس  بات کو اللہ کی طرف سے سمجھ کر صبر کرے اور یہ سوچے کہ اس میں اللہ کی حکمت ہوگی۔

باقی  بھائی بہنوں کے معاملات میں اپنی استطاعت کی حد تک ان کی خیرخواہی کا جذبہ رکھیں، لیکن اس کو اتنا ذہن پر سوار کرنا کہ آپ کے ذمہ کے حقوق میں کوتاہی ہو، یہ ہرگز مناسب نہیں ہے۔ اس حوالہ سے یہ ذہن رکھیں کہ جو باتیں آپ  کے بس کی نہیں ہیں (مثلاً بھائی بہنوں میں سے جنہوں نے برے کام کیے)، ان باتوں کو  زیادہ سوچنے کی بجائے ان کاموں کو سوچیں جو آپ کے ذمہ ہیں (مثلاً نمازوں کی پابندی کی ترتیب، گھر والوں کے حقوق کی ادائیگی وغیرہ)۔

نیز  یہ  سوچیں کہ جب اللہ نے نمازوں کو فرض کیا ہے تو اس کو پڑھنے کے اسباب و طاقت بھی دی ہے، آپ نہیں پڑھ پا رہے تو اس میں آپ ہی کو اپنی اصلاح کرنی ہے۔

بہتر ہوگا کہ   کسی متبعِ شریعت صاحبِ نسبت بزرگ کے سامنے اپنے احوال پیش کرکے ان سے رہنمائی لیں اور  ان کی ہدایات پر عمل کریں، انہیں اپنا بڑا اور خیر خواہ سمجھیں، نیز نیک مجالس میں شرکت  کرنا شروع  کردیں، ماحول کے بدلنے سے ان شاء اللہ کیفیات تبدیل  اور پریشانیاں ختم ہوجائیں گی۔    فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200762

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں