بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 ربیع الثانی 1446ھ 07 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

گھریلو جھگڑوں اور پریشانیوں کا حل اور شوہر کی محبت حاصل کرنے کا طریقہ


سوال

کافی عرصے سے گھریلو جھگڑوں اور پریشانیوں کا شکار رہی ہوں، شوہر کا رویہ ایک دم سے بدل گیا، بات بات پر طلاق کی دھمکی، گالیاں، مار پیٹ شروع کردی تو ایک دوست نے ایک صاحب کا بتایا جو فی سبیل اللہ علاج کرتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ سفلی ہے، لیکن وہ جادو کی کاٹ کرتے ہیں سفلی کی نہیں۔ کیا اس طرح معلومات کروانا درست ہے؟ آپ میرے لیے دعا بھی کریں اور اگر آپ کسی سفلی کاٹ کرنے والے کو جانتے ہوں تو برائے مہربانی میری مدد کردیں، بہت اذیت میں ہوں اتنی محبت کرنے والا شوہر ایک دم سے بدل گیا ہے!

جواب

عاملوں،جادوگروں اور سفلی والوں کے چکر میں  نہ پڑیں۔ جادو، سفلی وغیرہ   کا عمل  سب حرام ہے اور ایسے لوگوں کے پاس جانا اور غیب کی خبریں، جادو وغیرہ کے بارے میں معلوم کرنا بھی جائز نہیں ہے، احادیث میں اس کی سخت ممانعت آئی ہے۔

حضرت  معاویہ بن حکم سُلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرمایا:

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں ابھی نیا مسلمان ہوا ہوں، ہم میں سے بعض لوگ کاہنوں (غیب کی خبریں بتانے والوں) کے پاس جاتے ہیں، تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ان کے پاس مت جایا کرو۔‘‘

(مصنف ابن ابی شیبہ، 5/ 41)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’جو کسی کاہن کے پاس گیا اور اس کی باتوں پر یقین کیا تو وہ اس دین(اسلام) سے بَری ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل فرمایا۔‘‘

(مصنف ابن ابی شیبہ، 5/ 42)

حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرمایا:

’’جو کسی ساحر، کاہن، یا غیب کی خبریں بتانے والے کے پاس جائے اور ان کی باتوں کی تصدیق کرے تو اس نے اس دین(اسلام) سے کفر کیا جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل کیا گیا۔‘‘

(مصنف ابن ابی شیبہ، 5/ 42)

آپ اپنے شوہر سے اچھے اخلاق سے پیش آئیں، اس لیے کہ اچھے اخلاق سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں جس کے ذریعہ سخت سے سخت  پتھر دل اور  ظالم انسان بلکہ خون خوار  درندوں تک کا دل جیتا جاسکتا ہے اور انہیں قابو میں کیا جاسکتا ہے۔ اچھے اَخلاق اَنبیاءِ کرام علیہم السلام اور نیک لوگوں کی صفات میں سے ہے۔ اچھے اخلاق رکھنے سے ایمان میں ترقی اور کمال بھی پیدا ہوتا ہے اور آخرت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خوشنودی  اور  ساتھ بھی نصیب ہوتا ہے۔

قرآنِ مجید میں ہے:

{وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ} [فصلت:34]

ترجمہ: اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی (ہر ایک کا اثر جدا ہےتو اب آپ ( مع اَتباع) نیک برتاؤ سے (بدی کو) ٹال دیا کیجیے، پھر یکایک آپ میں اور جس شخص میں عداوت تھی وہ ایسا ہوجائے گا جیساکوئی دلی دوست ہوتاہے۔ (بیان القرآن، از مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  :

’’سب سے کامل ایمان والا وہ شخص ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔‘‘ (ترمذی)

ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

’’قیامت کے دن تم میں سے میرا سب سے زیادہ محبوب اور میرے سب سے زیادہ نزدیک وہ شخص ہوگا جس کے اَخلاق اچھے ہوں۔‘‘ (ترمذی)

نیز اپنے شوہر کی خوب خدمت کریں، گھر آنے کے وقت سے پہلے ہی اپنے شوہر کے لیے بتکلف بناؤ سنگھار کرکے تیار  رہیں، اور گھر آتے ہی ان کا گرم جوشی اور نرم اخلاق سے استقبال کریں، موسم کے لحاظ سے گرم یا ٹھنڈا مشروب پیش کریں، ان کے استعمال کی چیزوں کو مقررہ جگہ پر سلیقہ سے رکھیں۔ اور   یہ  سارے کام خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کریں اور اسی سے ثواب کی امید رکھیں، اور شوہر سے اس کے بدلہ میں کوئی توقع نہیں کریں۔ حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ نے فرمایا:

"دنیا میں اللہ تعالی کی ذات اقدس کے سوا کسی سے کسی خیر کی توقع نہ کریں اور نہ کسی پر اعتماد و توکل کریں، ورنہ سوائے خسران و ناکامی، کوئی اور نتیجہ نہ ہوگا۔"

(بینات بنوری نمبر، ص:۵۷)

شوہر کی ناقدری اور ناشکری نہ کریں۔ شوہر سے ہرگز غصہ سے بات نہیں کریں۔ زیادہ وقت خاموش رہنے کی عادت ڈالیں، اور جب بات کرنا ہو تو بتکلف  چہرہ پر شگفتگی، لبوں پر تبسم اور لہجہ میں نرمی ہو۔ شوہر کے مزاج کے خلاف کوئی بات نہ کریں۔"بہشتی زیور" کا چوتھا حصہ "میاں سے نباہ کرنے کا طریقہ" مطالعہ میں رکھیں۔ اور یاد رکھیں کہ شوہر کو خوش رکھنے والی بیوی کے لیے جنت کی بشارت ہے۔ حدیث شریف میں ہے:

’’حضرت حصین بن محصن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ کی پھوپھی کسی کام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  کی خدمت میں حاضر ہوئیں، جب وہ اپنے کام سے فارغ ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا: کیا آپ شوہر والی ہیں؟ انھوں نے کہا: ہاں! پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: شوہر کے ساتھ آپ کا رویہ کیسا ہے؟ انھوں نے کہا: میں نے کبھی اس کی اطاعت اور خدمت میں کسر نہیں چھوڑی سوائے اس چیز کے جو میرے بس میں نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اس کا خوب خیال رکھو کہ تم اس کی نظر میں کیسی ہو، اس لیے کہوہی تمہاری جنت اور جہنم ہے۔‘‘ (مسند احمد، 45/ 341)

شوہر کا دل نرم کرنے کے لیے "بسم اللّٰه الرحمن الرحيم" سات مرتبہ پڑھ کر پانی پر دَم کریں اور جب کھانا پکائیں تو اسی پانی سے پکائیں اور پینے کے پانی پر بھی دَم کریں، ان شاء اللہ شوہر کا دل نرم ہوجائے گا اور گھر رحمت بن جائے گا۔

دوسرا وظیفہ: شوہر کے سامنے  "يَا سُبُّوحُ يَا قُدُّوسُ يَا غَفُورُ يَا وَدُودُ" یہ چار نام دل دل میں پڑھتی رہیں اور کھانے پینے پر بھی دَم کریں، جب شوہر پانی مانگے اس پانی پر سات مرتبہ "يَا سُبُّوحُ يَا قُدُّوسُ يَا غَفُورُ يَا وَدُودُ" دَم کر کے اپنے شوہر کو پلائیں۔ شوہر کے سامنے یہ دَم نہ کریں،  ورنہ شیطان بدگمانی ڈالے گا۔

اس کے علاوہ ہر نماز کے بعد"يَا قَهَّارُ" سات بار پڑھیں۔ اول و آخر درود شریف اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اپنے اس نام کے صدقے میں اگر جن جادو وغیرہ کا اثر ہو اس کو زائل کردیں۔ یہ عمل کریں، عاملوں، جادوگروں کے پاس ہرگز  نہ جائیں۔

نیز صبح و شام درج ذیل اَذکار پڑھ کر دونوں ہاتھوں میں تھتکار کر پورے جسم پر پھیر لیں:

سات مرتبہ درود شریف، سات مرتبہ سورۂ فاتحہ، سات مرتبہ آیۃ الکرسی، سات مرتبہ سورۂ الم نشرح، سات مرتبہ سورۂ کافرون، سات مرتبہ سورۂ اِخلاص، سات مرتبہ سورۂ فلق، سات مرتبہ سورۂ ناس اور سات مرتبہ درود شریف۔

حوالہ جات:

مصنف ابن أبي شيبة، 5/ 41-42:

’’حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ، وَقَدْ جَاءَ اللَّهُ بِالْإِسْلَامِ، وَإِنَّ مِنَّا رِجَالًا يَأْتُونَ الْكُهَّانَ، قَالَ: «فَلَا تَأْتُوهُمْ».‘‘

’’حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ هِلَالٍ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: «إِنَّ هَؤُلَاءِ الْعَرَّافِينَ كُهَّانُ الْعَجَمِ، فَمَنْ أَتَى كَاهِنًا يُؤْمِنُ بِمَا يَقُولُ فَقَدْ بَرِئَ مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ».‘‘

’’حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، وَوَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ هُبَيْرَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: «مَنْ مَشَى إِلَى سَاحِرٍ أَوْ كَاهِنٍ أَوْ عَرَّافٍ فَصَدَّقَهُ فِيمَا يَقُولُ فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ».‘‘

مسند الإمام أحمد بن حنبل، 45/ 341:

’’حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، وَيَعْلَى قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ مِحْصَنٍ، أَنَّ عَمَّةً لَهُ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَةٍ، فَفَرَغَتْ مِنْ حَاجَتِهَا، فَقَالَ لَهَا: أَذَاتُ زَوْجٍ أَنْتِ؟، قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَيْنَ أَنْتِ مِنْهُ؟ - قَالَ يَعْلَى: فَكَيْفَ أَنْتِ لَهُ؟ - قَالَتْ: مَا آلُوهُ إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ، قَالَ: انْظُرِي أَيْنَ أَنْتِ مِنْهُ فَإِنَّهُ جَنَّتُكِ وَنَارُكِ.‘‘

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، 1/ 124:

’’وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَمَا هُنَّ؟ قَالَ: الشِّرْكُ بِاللَّهِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَكْلُ الرِّبَا وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ وَالتَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ». مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.‘‘

’’وَاعْلَمْ أَنَّ لِلسِّحْرِ حَقِيقَةً عِنْدَ عَامَّةِ الْعُلَمَاءِ خِلَافًا لِلْمُعْتَزِلَةِ وَأَبِي جَعْفَرٍ الِاسْتِرَابَاذِيِّ، ثُمَّ ظَاهِرُ عَطْفِ السِّحْرِ عَلَى الشِّرْكِ أَنَّهُ لَيْسَ بِكُفْرٍ، وَقَدْ كَثُرَ اخْتِلَافُ الْعُلَمَاءِ فِي ذَلِكَ، وَحَاصِلُ مَذْهَبِنَا: أَنَّ فِعْلَهُ فِسْقٌ، وَفِي الْحَدِيثِ: «لَيْسَ مِنَّا مِنْ سَحَرَ أَوْ سُحِرَ لَهُ». وَيَحْرُمُ تَعَلُّمُهُ خِلَافًا لِلْغَزَالِيِّ؛ لِخَوْفِ الِافْتِتَانِ وَالْإِضْرَارِ، وَلَا كُفْرَ فِي فِعْلِهِ وَتَعَلُّمِهِ وَتَعْلِيمِهِ إِلَّا إِنِ اشْتَمَلَ عَلَى عِبَادَةِ مَخْلُوقٍ، أَوْ تَعْظِيمِهِ كَمَا يُعَظَّمُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ، أَوِ اعْتِقَادَ أَنَّ لَهُ تَأْثِيرًا بِذَاتِهِ، أَوْ أَنَّهُ مُبَاحٌ بِجَمِيعِ أَنْوَاعِهِ، وَأَطْلَقَ مَالِكٌ وَجَمَاعَةٌ أَنَّ السَّاحِرَ كَافِرٌ، وَأَنَّ السِّحْرَ كُفْرٌ، وَأَنَّ تَعَلُّمَهُ وَتَعْلِيمَهُ كَفْرٌ، وَأَنَّ السَّاحِرَ يُقْتَلُ وَلَا يُسْتَتَابُ، سَوَاءً سَحَرَ مُسْلِمًا أَمْ ذِمِّيًّا. وَقَالَتِ الْحَنَفِيَّةُ: إِنِ اعْتَقَدَ أَنَّ الشَّيْطَانَ يَفْعَلُ لَهُ مَا يَشَاءُ فَهُوَ كَافِرٌ، وَإِنِ اعْتَقَدَ أَنَّ السِّحْرَ مُجَرَّدُ تَخْيِيلٍ وَتَمْوِيهٍ لَمْ يَكْفُرْ، وَاخْتَلَفَ الْحَنَابِلَةُ فِي كُفْرِهِ، وَفِي "التَّنْقِيحِ" مِنْ كُتُبِهِمْ: وَلَا تُقْبَلُ تَوْبَةُ سَاحِرٍ يَكْفُرُ بِسِحْرِهِ، وَيُقْتَلُ سَاحِرٌ مُسْلِمٌ يَرْكَبُ الْمِكْنَسَةَ فَتَسِيرُ بِهِ فِي الْهَوَاءِ وَنَحْوَهُ، وَيَكْفُرُ هُوَ وَمَنْ يَعْتَقِدُ حِلَّهُ. وَفِي الْفُرُوعِ لَهُمْ أَيْضًا: أَنَّ مَنْ أَوْهَمَ قَوْمًا بِطَرِيقَتِهِ أَنَّهُ يَعْلَمُ الْغَيْبَ فَلِلْإِمَامِ قَتْلُهُ؛ لِسَعْيِهِ بِالْفَسَادِ، وَبَقِيَ لِهَذَا الْمَبْحَثِ مُتَمِّمَاتٌ بَسَطْتُهَا مَعَ ذِكْرِ فُرُوقٍ بَيْنَ الْمُعْجِزَةِ وَالسِّحْرِ فِي كِتَابِي: الْإِعْلَامُ بِقَوَاطِعِ الْإِسْلَامِ.‘‘

شرح الأربعين النووية في الأحاديث الصحيحة النبوية، 1/ 73:

’’وقوله: وخالق الناس بخلق حسن، معناه: عامل الناس بما تحب أن يعاملوك به، واعلم: أن أثقل ما يوضع في الميزان الخلق الحسن. وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن أحبكم إلي وأقربكم مني مجلساً يوم القيامة أحاسنكم أخلاقا، وحسن الخلق من صفات النبيين والمرسلين وخيار المؤمنين: لا يجزون بالسيئة السيئة بل يعفون ويصفحون ويحسنون مع الإساءة إليهم.‘‘

شرح رياض الصالحين، 1/ 487:

’’الوصية الثالثة: ((خالق الناس بخلق حسن)) ! الوصيتان الأوليتان في معاملة الخالق، والثالثة في معاملة الخلق، إن تعاملهم بخلق حسن تحمد عليه ولا تذم فيه، وذلك بطلاقة الوجه، وصدق القول، وحسن المخاطبة، وغير ذلك من الأخلاق الحسنة. وقد جاءت النصوص الكثيرة في فضل الخلق الحسن، حتى قال النبي عليه الصلاة والسلام: ((أكمل المؤمنين إيمانا أحسنهم خلقا))، واخبر إن أولى الناس به صلي الله عليه وسلم وأقربهم من منزلة يوم القيامة أحسنهم أخلاقا فالأخلاق الحسنة مع كونها مسلكا حسنا في المجتمع ويكون صاحبها محبوبا إلى الناس فيها أجر عظيم يناله الإنسان يوم القيامة.‘‘

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144110201493

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں