بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غریب کے لیے سود کی رقم استعمال کرنا


سوال

ہندوستان کے غریب شخص نے "پنجاب نیشنل بینک" میں اکاؤنٹ کھلوایا ،تو اسے سود ملتا ہے بینک سے، تو کیا غریب شخص کے لیے ان سود کے پیسوں کو استعمال کرنا جائز ہے؟ یا اس غریب شخص کے ذمے لازم ہے کہ وہ بغیر ثواب کی نیت کے دوسرے غریب شخص کو وہ سود کے پیسے دے دے؟

جواب

شریعتِ مطہرہ نے نہ صرف  سود کو قطعی حرام قرار دیاہے، بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ قرار دینے کے ساتھ مختلف وعیدوں کا بھی ذکر کیا، نیز سود کی حرمت کا مذکورہ حکم امیر و غریب سب کے لیے یکساں ہے۔ 

صورتِ مسئولہ میں اگر ہندوستان کے بینک میں کرنٹ اکاؤنٹ نہیں صرف سیونگ اکاؤنٹ ہی ہے اور رقم کی حفاظت اور ضرورت کے لیے بینک میں اکاؤنٹ کھولنا ضروری ہے، تو مجبوراً ہندوستان کے  بینک میں اکاؤنٹ کھلوانے کے بعد جو سود ملے گا وہ نکال کر خود مسلمان غریبوں میں ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردے، سود کی رقم کو خود استعمال نہ کرے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا الله َ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾." [البقرة ]

ترجمہ:" اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے۔ اور اگر تم توبہ کرلوگے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ کہ معاف ہی کردو  زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔ "(بیان القرآن ) 

صحیح مسلم میں ہے:

"عن جابر، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا، وموكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء."

( كتاب المساقاة، باب لعن آكل الربا ومؤكله، ٣ / ١٢١٩، رقم الحديث: ١٥٩٨، ط: دار إحياء التراث العربي ببيروت)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"والسبيل في الكسب الخبيث التصدق".

(کتاب البیوع،ج12،ص172،ط:دارالمعرفة)

منحۃ الخالق لابن العابدين میں ہے:

"‌ويجب ‌عليه ‌تفريغ ‌ذمته ‌برده ‌إلى ‌أربابه ‌إن ‌علموا ‌وإلا ‌إلى ‌الفقراء".

( كتاب الزكوة، شروط وجوب الزكوة، ج2،ص  211، ط: دار الكتاب الإسلامي )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100950

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں