بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غریب آدمی کا تھوڑی سے جمع پونجی سے قربانی کرنے اور اس قربانی کے گوشت میں سے کھانے کا حکم


سوال

میں صاحبِ  نصاب نہیں ہوں، اپنے مال سے فی سبیل اللہ کچھ نکالتا رہتا ہوں،  اس کو خرچ کرنے میں میری نیت نفلی صدقہ یا بعض اوقات کسی کی مدد یا فلاح عامہ کے کام وغیرہ  ہوتی ہے، تاہم بعض اوقات ایسے مواقع آجاتے ہیں جب اس مال سے خرید کی گئی  شے اپنے  استعمال میں لے آتا ہوں،  مثلاً  غربا کے  لیے لنگر کا اہتمام جس میں میں بھی شریک ہو جاتا ہوں میری دسترس میں موجود رقم کی مقدار اس وقت اتنی ہو گئی ہے کہ میں قربانی دے سکتا ہوں، کیا اس رقم سے قربانی کرنا میرے لیے  درست ہو گا؟ اگر کر سکوں تو اس کی نیت کیا ہو گی؟ اور اس کا گوشت کھا سکتا ہوں؟ اگر قربانی نہیں کر سکتا تو بھی بتا دیں۔ واضح رہے کہ مجھے قربانی کا بے حد شوق ہے اور اپنے مال میں  اتنی گنجائش نہیں ہے کہ قربانی  کے بعد سہولت کے ساتھ مہینہ گزار سکوں،  کیا میں اس جمع شدہ فی سبیل اللہ کے مال جو کہ میرےپر قطعاً فرض نہیں،  بلکہ صرف اللہ پاک کی خوشنودی  کے لیے نکالتا ہوں، کوقربانی کی مد میں استعمال کر سکتا ہوں؟ 

جواب

اگر آپ صاحبِ  نصاب نہیں ہیں تو آپ پر قربانی کرنا واجب نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود آپ کے پاس تھوڑی بہت رقم جمع ہوگئی ہے جس سے آپ قربانی کرنا چاہتے ہیں تو اس رقم سے آپ کے  لیے قربانی کرنا جائز ہے، آپ اس قربانی میں قربانی  کی ہی نیت کریں گے، لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ اگرچہ آپ کے اوپر قربانی کرنا فی الحال واجب نہیں  ہے لیکن قربانی کی نیت سے جیسے ہی آپ جانور خرید لیں گے تو آپ پر اس متعین جانور کی قربانی واجب ہوجائے  گی، جانور خریدنے کے بعد آپ اس جانور کو بدل  نہیں سکتے  ، البتہ   چوں کہ آپ نے زبان سے قربانی  کی نذر نہیں مانی ہوگی؛ اس لیے  اس قربانی کا گوشت کھانا آپ کے  لیے جائز ہوگا۔ آپ ماہانہ جو رقم نفلی صدقہ کے  لیے جمع کرتے ہیں  اس رقم کو اس قربانی کی مد میں لگانا آپ کے  لیے  جائز ہے۔  تاہم آپ کو چاہیے کہ اپنے احوال کو بھی دیکھ لیجیے کہ اگر قربانی کرنے کی صورت میں   ماہانہ خرچ  میں بہت تنگی ہوجائے گی اور یہ آپ کے  لیے ناقابلِ برداشت بوجھ کا سبب بنے گا تو آپ قربانی نہ کیجیے، حسبِ توفیق صدقہ دے دیجیے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 327)

(قوله: ويأكل من لحم الأضحية إلخ) هذا في الأضحية الواجبة والسنة سواء إذا لم تكن واجبة بالنذر، وإن وجبت به فلا يأكل منها شيئا ولا يطعم غنيا سواء كان الناذر غنيا أو فقيرا لأن سبيلها التصدق وليس للمتصدق ذلك، ولو أكل فعليه قيمة ما أكل زيلعي، وأراد بالأضحية السنة أضحية الفقير فإنه صرح بأنها تقع منه سنة قبيل قول الكنز، ويضحي بالجماء لكنه خلاف ما في النهاية من أنها لا تقع منه واجبة ولا سنة بل تطوعا محضا، وكذا صرح في البدائع أنها تكون تطوعا وهي أضحية المسافر والفقير الذي لم يوجد منه النذر بها ولا الشراء للأضحية لانعدام سبب الوجوب وشرطه، فالظاهر أنه أراد بالسنة التطوع تأمل. ثم ظاهر كلامه أن الواجبة على الفقير بالشراء له الأكل منها. وذكر أبو السعود أن شراءه لها بمنزلة النذر فعليه التصدق بها اهـ. أقول: التعليل بأنها بمنزلة النذر مصرح به في كلامهم، ومفاده ما ذكر. وفي التتارخانية: سئل القاضي بديع الدين عن الفقير إذا اشترى شاة لها هل يحل له الأكل؟ قال نعم. وقال القاضي برهان الدين لا يحل اهـ فتأمل."

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"و لو تصدق بالكل جاز، ولو حبس الكل لنفسه جاز، وله أن يدخر الكل لنفسه فوق ثلاثة أيام إلا أن إطعامها والتصدق بها أفضل إلا أن يكون الرجل ذا عيال وغير موسع الحال فإن الأفضل له حينئذ أن يدعه لعياله ويوسع عليهم به، كذا في البدائع." (۵ / ۳۰۰، رشیدیہ)

امداد الفتاوی میں ہے :

"اس روایت سے معلوم ہوا کہ جب زبان سے نذر کرلے اس کا کھانا تو خود جائز نہیں اور جو نذر نہ کی ہو، گو مثل نذر کے اس پر واجب ہوگیا ہو، اس کا کھانا جائز ہے،  كما يدل عليه قوله : غير موسع الحال." (ج۳ / ص۵۶۳)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200528

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں