ہمارے گاؤں کے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سب پر صدقہ فطر لازم ہے جب کہ دیکھا جائے تو ان کا اپنا گھر بمشکل چل رہا ہوتا ہے،تو پوچھنا یہ ہے کہ ان کو منع کرنا چاہیے یا ان کو چھوڑ دیں اور وہ صدقہ فطر دیتے رہیں؟ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ سب اپنے اوپر لازم سمجھتے ہیں۔
جو شخص اتنا مال دار ہو کہ ا س پر زکوۃ واجب ہو، یا اس پر زکوۃ واجب نہیں لیکن قرض اور ضروری اسباب اور استعمال کی اشیاء سے زائد اتنی قیمت کا مال یا اسباب اس کے پاس موجود ہے جس کی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت تک پہنچ جائے تو ایسے شخص پر صدقہ فطر واجب ہے ، اور یہ سامان چاہے تجارت کا ہو یا نہ ہو، چاہے اس پر سال گزرا ہو یا نہ ہو۔
اور جس شخص کے پاس اتنا مال یا سامان موجود نہ ہو تو اس پر صدقہ فطر واجب نہیں ہوگا، بلکہ وہ زکاۃ اور صدقہ فطر وغیرہ لینے کا مستحق بن جائے گا بشرطیکہ اس کا تعلق ہاشمی خاندان (سید، عباسی وغیرہ) سے نہ ہو۔
صدقات کا مقصودِ اصلی فقیروں کی حاجت روائی ہے؛ اس لیے واجب صدقا ت شریعت نے مال داروں ہی کے ذمہ رکھے ہیں؛ تاکہ فقیروں کی حاجت روائی ہو سکے، اگر فقیر پر بھی لازم ہوں تو اس کا مقصد فوت ہو جا ئے گا ۔ چناں چہ حدیث شریف میں ہے "مسند أحمد بن حنبل" (2/ 230)کی روایت ہے جس کو امام بخاری رحمۃاللہ علیہ نے بھی تعلیقاً ذکر کیا ہے:
"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: "لا صدقة إلا عن ظهر غني".
یعنی صدقہ صرف مال دار پر ہی واجب ہوتا ہے۔
اگر کوئی آدمی غریب ہے، صاحبِ نصاب نہیں ہے، تو اس پرصدقہ فطر شرعی اعتبار سے واجب تو نہیں ہے، لیکن اگر وہ اپنی خوشی سے صدقہ فطر ادا کرنا چاہے تو ادا کرسکتا ہے اور اسے ثواب بھی ملے گا۔
حدیث شریف کے مطابق اگر فقیر صدقہ فطر ادا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے زیادہ عنایت فرماتے ہیں ، جتنا اس نے صدقہ فطر کے طور پر دیا ہے۔
-صحيح مسلم ـ مشكول(3 / 93):
"عن أبى هريرة قال أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم رجل فقال: يا رسول الله أي الصدقة أعظم؟ فقال: « أن تصدق وأنت صحيح شحيح تخشى الفقر وتأمل الغنى ولاتمهل حتى إذا بلغت الحلقوم؛ قلت: لفلان كذا، ولفلان كذا، ألا وقد كان لفلان".
مشکوۃ شریف میں ہے :
"وعن عبد الله بن ثعلبة أو ثعلبة بن عبد الله بن أبي صعير عن أبيه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " صاع من بر أو قمح عن كل اثنين صغير أو كبير حر أو عبد ذكر أو أنثى . أما غنيكم فيزكيه الله . وأما فقيركم فيرد عليه أكثر ما أعطاه". رواه أبو داود".
حضرت عبداللہ بن ثعلبہ یا حضرت ثعلبہ بن عبداللہ بن ابی صعیر اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: " صدقہ فطر واجب ہے گیہوں میں سے ایک صاع دو آدمیوں کی طرف سے (کہ ہر ایک کی طرف سے نصف نصف صاع ہو گا) خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے، آزاد ہوں یا غلام، مرد ہوں یا عورت، غنی کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ (صدقہ فطر دینے کی وجہ سے) اسے پاکیزہ بنا دیتا ہے اور فقیر کا معاملہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اس سے زیادہ دیتا ہے جتنا اس نے صدقہ فطر کے طور پر دیا " ۔ (ابو داؤد)
لہذاگاؤں کے افراد کو صدقہ فطر کے وجوب کا مسئلہ بتلادیاجائے، لیکن صدقہ دینے سے روکا نہ جائے، اگر وہ اپنی رضا سے بغیر وجوب کے بھی صدقہ دیتے ہیں تو اجر وثواب کے مستحق ہوں گے۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109202199
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن