بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر یا دوکان کے ملازمین کو زکات دینا


سوال

ہم اپنی زکات دوکان اور گھر کے ملازمین کو دے سکتے ہیں؟ دوسری صورت ہم زکات کس کو ادا کر سکتے ہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں گھر یا دوکان کے ملازمین اگر زکات کے مستحقین ہیں تو انہیں زکات دے سکتے ہیں، لیکن  رمضان کی مناسبت سے انہیں ایک زائد تنخواہ کے نام پر زکات دینا جائز نہ ہوگا، بلکہ زکات تنخواہ سے جدا دینی ہوگی۔

مستحقِ  زکات    ملازم سے مراد وہ مسلمان  فرد ہے  جس کی ملکیت میں نہ ساڑھے سات تولہ سونا ہو، اور نہ ہی ساڑھے باون تولہ چاندی ہو، اور نہ ہی کچھ سونا ، کچھ چاندی، یا ان دونوں کے  ساتھ یا کسی ایک کے ساتھ کچھ نقدی ہو  جن کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے مساوی ہو، یا  استعمال سے زائد کسی بھی قسم کا سامان جس کی مالیت  تنہا یا نقدی یا چاندی یا سونے کے ساتھ ملاکر ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے مساوی ہو ، یا وہ اتنا  مقروض ہو  کہ قرضہ اتارنے کی سکت نہ رکھتا ہو، اور وہ سید/ ہاشمی نہ ہو۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى المؤدى إليه فأنواع: منها أن يكون فقيرًا فلايجوز صرف الزكاة إلى الغني إلا أن يكون عاملًا عليها؛ لقوله تعالى: {إنما الصدقات للفقراء والمساكين والعاملين عليها والمؤلفة قلوبهم وفي الرقاب والغارمين وفي سبيل الله وابن السبيل} [التوبة: 60] جعل الله تعالى الصدقات للأصناف المذكورين بحرف اللام وأنه للاختصاص فيقتضي اختصاصهم باستحقاقها فلو جاز صرفها إلى غيرهم لبطل الاختصاص وهذا لا يجوز والآية خرجت لبيان مواضع الصدقات ومصارفها ومستحقيها وهم وإن اختلفت أساميهم فسبب الاستحقاق في الكل واحد وهو الحاجة إلا العاملين عليها فإنهم مع غناهم يستحقون العمالة؛ لأن السبب في حقهم العمالة لما نذكر ثم لا بد من بيان معاني هذه الأسماء.

أما الفقراء والمساكين فلا خلاف في أن كل واحد منهما جنس على حدة وهو الصحيح لما نذكر ... ومنها أن يكون مسلما فلايجوز صرف الزكاة إلى الكافر بلا خلاف لحديث معاذ -رضي الله عنه- «خذها من أغنيائهم وردها في فقرائهم» أمر بوضع الزكاة في فقراء من يؤخذ من أغنيائهم وهم المسلمون فلايجوز وضعها في غيرهم."

(  كتاب الزكاة، فصل الذي يرجع إلى المؤدى إليه، ٢ / ٤٣ - ٤٩، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208201500

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں