بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر یا دفتر میں باجماعت نماز پڑھے تو اذان کا حکم


سوال

کیامسجد کے علاوہ کسی اور مقام مثلاً گھر یا دفتر میں نماز کی جماعت کروانے کے لیے اذان کا دینا لازمی ہے، اگر دفتر میں ایک کمرہ جماعت کی نماز کے لیے مخصوص کر دیا ہو تو وہاں جماعت کروانے کے  لیے اذان دینا لازمی ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر محلہ میں اذان ہوئی ہے تو اسی پر اکتفا  کیا جائے  دوبارہ اذان دینے  کی ضروت نہیں ۔

نیز واضح  ہو کہ اگر کبھی کسی شرعی عذر کی وجہ سے مسجد کی جماعت کی نماز رہ جائے اور آدمی اپنے گھر یا دفتر والوں کے ساتھ  باجماعت نماز پڑھنا  چاہے تو پڑھا سکتا ہے ، اور  مسجد میں جماعت نکلنے کی صورت میں انفرادی نماز پڑھنے کے مقابلہ میں گھر یا دفتر  میں جماعت کے ساتھ نماز پڑ ھنا افضل ہے،  تاہم مسجد کی جماعت کو مستقل چھوڑ کر گھر یا دفتر ہی میں باجماعت نماز پڑھنے کا معمول بنا لینے سے مسجد کی نماز کے ثواب سے محرومی ہوجائے گی؛ لہذا یہ عادت مناسب نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 395):

(وكره تركهما) معًا (لمسافر) ولو منفردًا (وكذا تركها) لا تركه لحضور الرفقة (بخلاف مصل) ولو بجماعة (وفي بيته بمصر) أو قرية لها مسجد؛ فلايكره تركهما إذ أذان الحي يكفيه".

"(قوله: في بيته) أي فيما يتعلق بالبلد من الدار والكرم وغيرهما، قهستاني. وفي التفاريق: وإن كان في كرم أو ضيعة يكتفي بأذان القرية أو البلدة إن كان قريبًا وإلا فلا. وحد القرب أن يبلغ الأذان إليه منها اهـ إسماعيل. والظاهر أنه لايشترط سماعه بالفعل، تأمل.
(قوله: لها مسجد) أي فيه أذان وإقامة، وإلا فحكمه كالمسافر صدر الشريعة.
(قوله: إذ أذان الحي يكفيه) لأن أذان المحلة وإقامتها كأذانه وإقامته؛ لأن المؤذن نائب أهل المصر كلهم كما يشير إليه ابن مسعود حين صلى بعلقمة والأسود بغير أذان ولا إقامة، حيث قال: أذان الحي يكفينا، وممن رواه سبط ابن الجوزي فتح: أي فيكون قد صلى بهما حكما، بخلاف المسافر فإنه صلى بدونهما حقيقة وحكما؛ لأن المكان الذي هو فيه لم يؤذن فيه أصلا لتلك الصلاة كافي. وظاهره أنه يكفيه أذان الحي وإقامته وإن كانت صلاته فيه آخر الوقت تأمل، وقد علمت تصريح الكنز بندبه للمسافر وللمصلي في بيته في المصر، فالمقصود من كفاية أذان الحي نفي الكراهة المؤثمة. قال في البحر: ومفهومه أنه لو لم يؤذنوا في الحي يكره تركهما للمصلي في بيته، وبه صرح في المجتبى، وأنه لو أذن بعض المسافرين سقط عن الباقين كما لايخفى."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200307

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں