بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر وارث مرحوم کی جائیداد مسجد کمیٹی کو دے اس کا حکم


سوال

کسی کےانتقال ہوجانےپراگرکوئی شخص مرحوم کی جائیدادکسی مسجدکمیٹی کےپاس لےکرجائے،مسجدکووقف کرنےکےلیے،اس وقت مسجدکمیٹی کوکیاایکشن لیناچاہیے؟جب کہ عام آدمی کواس سلسلےمیں ان باریکیوں کےبارےمیں معلومات نہیں ہوتی کہ جائیدادکوکہاں جاناچاہیے؟

برائےمہربانی وضاحت فرمادیجئے۔

جواب

کوئی بھی معاملہ کرنےسےپہلےاگراس کےبارےمیں شرعی حکم معلوم نہ ہوتومعاملہ کرنےوالےکی ذمہ داری ہےکہ وہ پہلےاس کاشرعی حکم معلوم کرےپھراس کے مطابق وہ معاملہ کرے، شرعی حکم معلوم کیےبغیرمعاملہ کرنےمیں غلطی کاقوی امکان رہتاہے، لہذاکسی شخص کےانتقال کےبعداگرکوئی شخص مرحوم کی متروکہ جائیداد اس کےورثاءمیں تقسیم کرنےکےبجائےکسی مسجدکووقف کرناچاہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ پہلے اس کاشرعی حکم معلوم کرے، اسی طرح مسجدکمیٹی کی بھی ذمہ داری بنتی ہےکہ وہ یہ دیکھےکہ جومسجدکوجائیداد وقف کرنےآیاہے وہ اس جائیداد کاشرعی اورقانونی مالک بھی ہےیانہیں؟اگرکوئی مالک اپنی جائیدادیاکوئی وارث اپناحصہ مسجدکووقف کرناچاہےاورمسجدکمیٹی اس شخص پراعتماد کرتے ہوئے کہ یہ اس شخص کی اپنی جائیداد ہے، اس جائیداد کومسجدکےلیےقبول کرلیتی ہےتو اسے الزام نہیں دیا جاسکتا، تاہم وقف کےمعاملہ میں احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ آئندہ  مسجدکمیٹی مکمل تسلی کرے کہ وقف کرنے والا دیگر ورثاءکی حق تلفی تونہیں کررہاہے؟اس  تسلی کےبعدہی کوئی جائیداد مسجد کے لیے قبول کرے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"لا ‌يجوز ‌التصرف ‌في ‌مال غيره بلا إذنه ولا ولايته."

(كتاب الغصب، مطلب فيما يجوز من التصرف بمال الغير بدون إذن صريح، ج:6،ص:200، ط:دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"التركة تتعلق بها حقوق أربعة: جهاز الميت ودفنه والدين والوصية والميراث."

(كتاب الفرائض، ج:6، ص:447، ط:دار الفكر)

وفيه ايضا:

"(ومنها) الملك وقت الوقف حتى لو غصب أرضا فوقفها ثم اشتراها من مالكها ودفع الثمن إليه أو صالح على مال دفعه إليه لا تكون وقفا كذا في البحر الرائق رجل وقف أرضا لرجل آخر في بر سماه ثم ملك الأرض لم يجز وإن أجاز المالك جاز عندنا كذا في فتاوى قاضي خان......رجل وقف وقفا ولم يذكر الولاية لأحد قيل: الولاية للواقف، وهذا على قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى -؛ لأن عنده التسليم ليس بشرط، أما عند محمد - رحمه الله تعالى - فلا يصح هذا الوقف ويفتى به كذا في السراجية."

(كتاب الوقف، ج:2، ص:353، ط:دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144603103178

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں