بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر والوں سے چھپ کر نکاح کرنے کا حکم


سوال

میں ایک لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہوں اور وہ لڑکی بھی مجھ سے نکاح کرنا چاہتی ہے اور ہم دونوں کا رشتہ بھی طے ہوگیا ہے اور رشتہ طے ہوئے ڈیڑھ سے دو سال کا عرصہ بھی گزرچکا ہے، اب چوں کہ میں مسلمان ہوں، میں نکاح کرنا چاہتا ہوں اس لیے میں نے اور میرے گھر والوں نے لڑکی والوں سے نکاح کی پیشکش کی اور لڑکی والے سب مان گئے، یہاں تک کہ لڑکی خود بھی مان گئی، لیکن صرف لڑکی کے والد نہیں مان رہے،  ان کا کہنا ہے کہ نکاح اور رخصتی ایک ساتھ ہوگی، اب رخصتی میں کتنا وقت لگے؟ ایک سال یا دو سال، یہ ابھی طے نہیں ہوا ہے، لیکن میں اور میری منگیتر ہم دونوں آپس میں ملتے رہتے ہیں اور روز باتیں کرتے ہیں اور مجھے اللہ سے ڈر بھی لگتا ہے، اس لیے میں نکاح کرنا چاہتا ہوں، گناہ سے بچنے کے لیے کہ ہم مزید کوئی بڑا گناہ نہ کر بیٹھیں۔

اس لیے میں لڑکی سے کہتا ہوں کہ ہم دونوں 2 لوگوں کی گواہی میں کے ساتھ نکاح کرلیں، تاکہ کسی گناہ میں شریک نہ ہوں اور پھر بعد میں سب کے سامنے جیسے نکاح ہوتا ہے، اس طرح دوبارہ نکاح کر لیں گے، اب یہ میں نے مفتی صاحب سے بھی پوچھا تھا، تو انہوں نے کہا کہ آپ اس طرح کر سکتے ہیں، اور یہ تجدید نکاح کہلاتا ہے، لیکن لڑکی کہتی ہے کہ پہلے مجھے فتویٰ لاکر دکھاؤ۔

لہٰذ اگر یہ ممکن ہے کہ ہم گناہ سے بچنے کے لیے اس طرح کر سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اگرلڑکا اور لڑکی  دو شرعی گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کرلیں، تو نکاح منعقد ہوجاتا ہے، لیکن گھر والوں سے چھپ کر اس طرح نکاح کرنا یہ شرعاً اور اخلاقاً  درست نہیں ہے  اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو کھلے عام ار مساجد میں کرنے کا حکم دیا ہےاور گھر والوں کو بھی چاہیے کہ بلاوجہ نکاح کرنے میں تاخیر نہ کریں اور جلد از جلد دونوں کا نکاح کرادیں، ورنہ بعض اوقات نکاح میں تاخیر کرنا بہت سے مفاسد کا سبب بن جاتا ہے، تاہم اگر لڑکا اور لڑکی مذکورہ طریقے سے چھپ کر نکاح کرلیں، تو نکاح منعقد ہوجائے گا اور بعد میں تمام خاندان والوں کے سامنے تجدید نکاح بھی کرسکتے ہیں۔

البتہ جب تک نکاح نہ ہوجائے، اس وقت تک لڑکے اور لڑکی کا ساتھ رہنا اور آپس میں باتیں کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

تحفۃ الاحوذی شرح سنن ترمذی میں ہے:

"قال رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم: «أعلنوا هذا النكاح، واجعلوه في المساجد،واضربواعليه بالدفوف.

قَوْلُهُ: (أعلنوا هذا النكاح) أي بالبينة فالأمر للوجوب أو بالإظهار والاشتهار فالأمر للاستحباب كما في قوله (واجعلوه في المساجد) وهو إما لأنه أدعى للإعلان أولحصول بركة المكان (واضربوا عليه) أي على النكاح (بالدفوف) لكن خارج المسجد".

(كتاب النكاح،باب ماجاءفى إعلان النكاح، ج:4، ص:174، ط:دارالكتب العلمية)

وفیہ ایضاً:

"(عن علي بن أبي طالب، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال له: " يا علي، ثلاث ).....(لا تؤخرها: الصلاة )....(إذا أتت، والجنازة إذا حضرت، والأيم) بتشديد الياء المكسورة أي المرأة العزبة ولو بكرا قاله القارىء يعني التي لا زوج لهاإ(ذا وجدت لها كفئا )."

(أبواب الجنائز، باب ماجاء في تعجيل الجنازة،ج:4،ص:161، ط: دار الكتب العلمية) 

فتاوی شامی میں ہے:

"وشرط حضور شاهدین حرین مکلفین سامعین قولهما معا علی الأصح فاهمین أنه نکاح علی المذهب مسلمین لنکاح المسلمة".

( کتاب النکاح ،ج:2،ص: 373، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

" ویندب إعلانه وتقدیم خطبة وکونه في مسجد یوم جمعة بعاقد رشید وشهودعدول".

(کتاب النکاح،ج:4،ص:66،ط:امداديه ملتان)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401100357

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں