بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر سے بھاگ جانے والی خاتون کو قتل کرنا جائز نہیں


سوال

میرا بیٹا جو کہ عرصہ تین ماہ سے بیمار ہے کوما میں ہے،  اور اس کا ایک 13 ماہ کا بیٹا بھی ہے،  اس کی بیوی اپنے بیٹے کو چھوڑ کر رات کو اچانک میرے بھتیجے کے ساتھ بھاگ گئی ہے،  اب میرے لئے ان کو قتل کرنا جائز ہے یا نہیں شریعت میں اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائل  اپنے مذکورہ بھتیجے اور بہو کے خلاف قانونی چارہ جوئی تو کر سکتا ہے، تاہم ان کے اس عمل پر ان کو قتل کرنا جائز نہیں ہے۔ قانونی چارہ جوئی  کرکےانہیں سخت سے سخت سزا دی دلوائی جاسکتی ہے اور جب تک دونوں علیحدہ نہ ہوں اس وقت تک  ان سے قطع تعلق وغیرہ جائز ہوگا۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائعمیں ہے:

"وأما شرائط جواز إقامتها فمنها ما يعم الحدود كلها، ومنها ما يخص البعض دون البعض، أما الذي يعم الحدود كلها فهو الإمامة: وهو أن يكون المقيم للحد هو الإمام أو من ولاه الإمام وهذا عندنا ... (ولنا) أن ولاية إقامة الحدود ثابتة للإمام بطريق التعيين، والمولى لا يساويه فيما شرع له بهذه الولاية، فلا يثبت له ولاية الإقامة استدلالا بولاية إنكاح الصغار والصغائر؛ لأنها لما ثبتت للأقرب - لم تثبت لمن لا يساويه فيما شرع له الولاية وهو الأبعد، وبيان ذلك أن ولاية إقامة الحد إنما ثبتت للإمام؛ لمصلحة العباد وهي صيانة أنفسهم وأموالهم وأعراضهم؛ لأن القضاة يمتنعون من التعرض خوفا من إقامة الحد عليهم، والمولى لا يساوي الإمام في هذا المعنى؛ لأن ذلك يقف على الإمامة، والإمام قادر على الإقامة؛ لشوكته ومنعته وانقياد الرعية له قهرا وجبرا، ولا يخاف تبعة الجناة وأتباعهم؛ لانعدام المعارضة بينهم وبين الإمام، وتهمة الميل والمحاباة والتواني عن الإقامة منتفية في حقه فيقيم على وجهها فيحصل الغرض المشروع له الولاية بيقين."

( كتاب الحدود، فصل في شرائط جواز إقامة الحدود، ٧ / ٥٧، ط: دار الكتب العلمية )

الفقه الإسلامي و أدلته  میں ہے:

" ثانيا ـ لا يقيم الحدود إلا الإمام أو من فوض إليه الإمام، باتفاق الفقهاء؛ لأنه لم يقم حد على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا بإذنه، ولا في أيام الخلفاء إلا بإذنهم، ولأن الحد حق لله تعالى يفتقر إلى الاجتهاد، ولا يؤمن فيه الحيف، فلم يجز بغير إذن الإمام."

(القسم الخامس: الفقه العام ، الباب الأول - الحدود الشرعية، الفصل الأول: حد الزنا، المبحث الخامس ـ إقامة الحد على الزاني، ٧ / ٥٣٨٥، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144410100176

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں