میرے پاس حاضر وقت میں اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں گھر خرید لوں، اگر کوئی ایسا شخص مل جائے جو پہلے بھی بینکوں سے لون لیتا ہو یا غیر مسلم شخص ہو، میں اس کو کہوں کہ آپ حکومت کی اسکیم والا گھر خرید لو، اور پھر کچھ منافع لے لو، مثلاً حکومت پانچ سال کے لیے 6000000 لاکھ دے رہی ہے تو آپ مجھے پانچ سال یا چار کے لیے 7000000 لاکھ دے دو اور پیسوں کے وقت قسط معلوم کریں!
صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص از خود کسی جگہ سے سودی قرض لے، (یعنی آپ نے اس کو سودی قرض لینے کے لیے نہ کہا ہو) اور پھر وہ آپ کو یہ رقم بغیر کسی سود کے دے رہا ہو اور آپ اس رقم سے اپنی ضرورت کو پورا کریں ،تو ایسی صورت میں آپ کا اس شخص سے وہ غیر سودی قرض لینا جائز ہوگا۔ لیکن آپ کی ذکر کردہ مثال کے مطابق اگر وہ 60 لاکھ روپے سودی قرض لے اور آپ کو مزید سود رکھ کر آگے دے تواس طرح کرنا جائز نہیں ہے۔
سود کے ایک درہم کو رسول اللہﷺ نے 36مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت گناہ قرار دیا ہے۔ حدیث شریف میں ہے:
’’عن عبد اللّٰه بن حنظلة غسیل الملائکة أن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم قال: لَدرهمُ ربًا أشد عند اللّٰه تعالٰی من ست وثلاثین زنیةً في الخطیئة‘‘. (دار قطني)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144207201595
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن