بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر سے نکل جاؤ کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

میرے والد صاحب کا رویہ میری والدہ کے ساتھ انتہائی نا مناسب اور غیر اخلاقی ہے ،معمولی معمولی باتوں پر ڈانٹنا ،برا بھلا کہنا اور بات بات پہ ہاتھ اٹھانا ایک معمول بن چکا ہے ۔گزشتہ چھ سات مہینوں سے جب بھی والد صاحب والدہ سے الجھتے ہیں تو یہ جملہ تسلسل کے ساتھ کہتے ہیں :"اس گھر سے نکل جاؤ ،میں نے دس مرتبہ تمہیں یہاں سے نکلنے کا کہا ہے ،یا پھر میں تمہیں ہاتھ سے پکڑ کر نکال دوں"اس کا میں بذاتِ خود اور میرے بھائی گواہ ہیں۔میری والدہ جو کہ ایک دین دار اور پرہیزگارعورت ہیں ،ان کا کہناہے کہ اس جملے کی کثرت کی وجہ سے اب یہ شخص مجھے نامحرم اور اجبنی لگتا ہے ،ایسا لگتا ہی نہیں ہے کہ یہ میرا شوہر ہے،یہ شخص مجھے طلاق دے چکا ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ طلاق کے واضح الفاظ یہ کسی بھی وجہ سے نہیں کہہ رہا ہے ،باقی اشاروں میں مجھے طلاق دے چکا ہے ۔سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں میرے والد کا میر ی والدہ کے ساتھ رہنا جائز ہے یا نہیں؟کیا اس صورتِ حال میں طلاق واقع ہوچکی ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ الفاظ کنائی طلاق کے الفاظ میں سے ہیں جن سے بغیر نیت کے طلاق واقع نہیں ہوتی،لہذا والد سے ان کی نیت کے بارے میں معلوم کریں ،اگر وہ نیت نہ ہونے کا اظہار کریں تو ان کی وضاحت مان لی جائے اور اگر ان کی وضاحت پر والدہ کو شک ہو تو والد سے حلف کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے،پھر  اگر سائل کے والد قسم کھاکر یہ بات کہہ دیں کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کو یہ جملہ کہ:"میرے گھر سے نکل جاؤ" ،طلاق کی نیت سے نہیں کہا تو اس سے سائل کی والدہ پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی،ایسی صورت میں سائل کی والدہ کے اس سجمھنے کا کوئی اعتبار نہیں ہے کہ ان کاشوہر انہیں  طلاق دے چکا ہے۔

لیکن اگرسائل کے والد اس بات کا اقرار کریں کہ  مذکورہ الفاظ انہوں نے طلاق کی نیت سے کہے تھے تو ایسی صورت میں سائل کی والدہ پر ایک طلاق بائن واقع ہوچکی ہے ،البتہ اس ایک طلاق بائن کے بعد مذکورہ الفاظ بار بار ادا کرنےسے ان پرمزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔اس صورت میں سائل کے والد کے لیےجائز نہیں ہے کہ وہ سائل کی والدہ کے ساتھ رہیں،دونوں پر لازم ہے کہ وہ فی الفور علیحدہ ہوجائیں اور طلاق کے بعد جتنا عرصہ ساتھ رہے ہیں اس پر توبہ  و استغفار کریں،تاہم اگر سائل کے والد اور والدہ باہمی رضامند سے دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں توگواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہے ، آئندہ کے لیے  دو طلاقوں کااختیار باقی ہوگا۔

سائل کے والد کا اپنی اہلیہ کے ساتھ سخت رویہ رکھنا ہر گز مناسب نہیں ہے ،قرآن مجید میں اللہ سبحانہ وتعالی نے مردوں کو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھنے کا حکم دیا ہے،اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ "تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ سب سے اچھا برتاؤ کرنے والا ہوں"،لہذا سائل کے والدکو چاہیے کہ اگر کسی شرعی وجہ سے وہ اپنی اہلیہ کی تادیب کے لیے کوئی اقدام کرنا چاہیں تو انہیں نرمی کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کریں ،نیز والدہ کو بھی چاہیے کہ والد کی اطاعت اور فرمانبرداری کریں۔

ارشاد باری تعالی ہے :

وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا 

(النساء:19)

ترجمہ:اور عورتوں کے ساتھ خوبی کے ساتھ گزران کیا کرواور اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم ایک شے کو ناپسند کرو اوراللہ تعالی اس کے اندر کوئی بڑی منفعت رکھ دے۔

(بیان القرآن،ج:1،ص:339،دار الاشاعت)

الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(فنحو اخرجي واذهبي وقومي) (يحتمل رداالخ"

(کتاب الطلاق،باب الکنایات،ج:3،ص:298،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والأحوال ثلاثة (حالة) الرضا (وحالة) مذاكرة الطلاق...(وحالة) الغضب ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية والقول قول الزوج في ترك النية مع اليمين  الخ."

(کتاب الطلاق،الباب الثانی فی ایقاع الطلاق،الفصل الخامس فی الکنایات فی الطلاق،ج:1،ص:375،ط:رشیدیہ)

الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله

وفی الرد:

(قوله بيمينه) فاليمين لازمة له سواء ادعت الطلاق أم لا حقا لله تعالى ط عن البحر"

(کتاب الطلاق،باب الکنایات،ج:3،ص:301،ط:سعید)

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے:

"فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد الخ."

(کتاب الطلاق،فصل فی حکم الطلاق البائن،ج:3،ص:187،ط:سعید)

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

سوال:ایک شخص مسلمان اس وقت بصرہ انگریزی فوج میں ملازم ہے ۔اس شخص نے جنگ میں سے اپنے گھر خط تحریر کیا اور اپنی عورت کو مخاطب کرکے یہ لکھا کہ تم میرے گھر سےنکال جاؤ ،ہمارا تمہارے ساتھ کچھ تعلق نہیں ہے ،تم ہمارے سے مر گئی اور ہم تمہارے سے مرگئے ...ان الفاظ سے طلاق ہوجاتی ہے یا نہ؟الخ.

جواب:یہ الفاظ جو اس شخص نے اپنی زوجہ کو لکھے ہیں اگر طلاق کی نیت سے لکھے ہوں تو ایک طلاق بائن اس کی زوجہ پر واقع ہوگئی۔

(باب الطلاق،ج:9،س:288،ط:دار الاشاعت) فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100932

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں