بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر سنبھالنے میں بہو اور ساس کی ذمہ داری


سوال

کیا عورتیں شادی کے بعد اپنے حساب سے زندگی نہیں جی سکتی؟ کیا اپنی مرضی سے سو آٹھ نہیں سکتی؟ کیا سارے گھر کے کام اکیلے لڑکی ہی کرے چاہے لڑکی حاملہ ہو؟ بچے والی ہو؟ میں اپنے بچوں کو چولہے کے پاس رکھ کر کھانا بناتی ہوں ،کوئی میرے بچے کو گود تک نہیں لیتا کیا یہ صحیح ہے؟ انہیں گناہ نہیں ہوگا؟ کیا میری موجودگی میں اگر میری ساس کچھ کام کرے تو کیا مجھے گناہ ہوگا؟ کوئی مجھ سے میری اولاد سے محبت نہیں کرتا میرے دل میں کسی کیلئے محبت نہیں ہے میں صرف اپنے رب کیلئے کسی کو نہیں ستاتی ہوں پر کسی سے مجھے کوئی محبت نہیں۔

جواب

واضح رہے کہ شادی کے بعد بہو کے معاملات ساس سسر کے ساتھ اور ساس سسر کے بہو کے ساتھ، اسی طرح بیوی کے شوہر کے ساتھ اور شوہر کے بیوی کے ساتھ معاملات اصولوں پر نہیں چلا کرتے بلکہ ہر ایک کی طرف سے دوسرے کے لیے محبت، تعاون اور تسامح کے ساتھ چلا کرتے ہیں۔ نیز یہ واضح رہے کہ جب سائلہ ، اس کا شوہر اور ساس سسر سب اک گھر میں ساتھ رہتے ہیں تو نہ ساس پورے گھر کی دیکھ بھال کی ذمہ دار ہے اور نہ بہو پورے گھر کی دیکھ بھال کی ذمہ دا ر ہے۔لہذا سائلہ کو چاہیے وہ شوہر کی خدمت جو اس پر واجب ہے اس کے ساتھ ساتھ اس کے والدین کی خدمت اپنے والدین سمجھ کر اور نیکی سمجھ کر  وسعت کے مطابق کرتی رہے اور اس خدمت کی وجہ سے اپنا دل ان کے بارے میں خراب نہ کرے اور ساس کو چاہیے کہ وہ اپنی بہو کو اپنی بیٹی سمجھ کر جتنی سہولت اور آرام مہیا کرسکے کرے۔ اس سے بے جا کام نہ کرائے اور خود اگر کام کرنے پر طاقت رکھتی ہے تو خود بھی بہو کے ساتھ کام میں شریک ہو یا پھر اپنے پوتے پوتیوں کی دیکھ بھال میں بہو کی معاونت کرے۔نیز سائلہ کا شوہر اگر صاحب وسعت ہے اور گھر کے کام کاج کے لیے خادمہ کا انتظام کر سکتا ہے تو اپنی والدہ اور بہو دونوں کا ہاتھ بٹانے کے لیے خادمہ کا انتظام کرے۔

اگر ساس اپنی بہو پر بے جا زیادتی کرے گی اور اس کو تکلیف پہنچائے گی یا بہو اپنی ساس کی دل آزاری کرے گی تو پھر عند اللہ دونوں سے پوچھ ہوگی لہذا دونوں ماں بیٹیوں کی طرح اپنے رشتہ کو نبہائیں اور سائلہ کا شوہر اور سائلہ کا سسر اس معاملے  میں مثبت کردار ادا کرے دونوں ساس بہو میں جوڑ اور دلی محبت پیدا کرنے کی کوش کریں۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن ابن عمرو رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «ليس الواصل بالمكافئ، ولكن الواصل الذي إذا قطعت رحمه وصلها» ". رواه البخاري."

(کتاب الآداب، باب البر و الصلۃ ج نمبر ۷، ص نمبر ۳۰۸۶، دا ر الفکر)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه «أن رجلا قال: يا رسول الله، إن لي قرابة أصلهم ويقطعوني، وأحسن إليهم ويسيئون إلي، وأحلم عنهم ويجهلون علي. فقال: " لئن كنت كما قلت فكأنما تسفهم المل، ولا يزال معك من الله ظهير عليهم ما دمت على ذلك» . رواه مسلم."

(کتاب الآداب، باب البر و الصلۃ ج نمبر ۷، ص نمبر ۳۰۸۷، دا ر الفکر)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن أبي ذر رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «اتق الله حيثما كنت، وأتبع السيئة الحسنة تمحها، وخالق الناس بخلق حسن» ". رواه أحمد والترمذي، والدارمي."

(کتاب الآداب، باب الرفق، ج نمبر ۸، ص نمبر ۳۱۷۷، دا ر الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101375

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں