بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جمادى الاخرى 1446ھ 04 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر پر زکات کا حکم


سوال

 میں نے ایک مکان خریدا ہے، جس کا میں بیعانہ  دے  چکا ہوں، اور 25 لاکھ ادا کر چکا ہوں،  50 لاکھ اور ادا کرنے ہیں، ابھی تک میں نے مکان پر قبضہ نہیں کیا اور میں صاحب نصاب بھی ہو ں، میرا زکوۃ کا سال پورا ہوا چاہتا ہے، تو اب میں زکوۃ میں مکان کے صرف 25 لاکھ کو منہا کر کے زکاۃ نکالوں،  یا پورے 75 لاکھ کو منہا کرکے زکاۃ نکالو ں، یا ان پیسوں کو زکوۃ میں شامل کروں؟

جواب

صورت مسئولہ میں  سائل نے  مذکورہ مکان اگر رہائش اختیار کرنے کی نیت سے خریدا تھا، اور بقیہ  50 لاکھ کی ادائیگی قسطوار متعین نہ کی گئی ہو، تو اس صورت میں مال نصاب میں سے 50 لاکھ منہا کرکے زکات کا حساب کرے گا، اور  اسی طرح  25 لاکھ جو ادا کرچکا ہے، اس پر بھی زکات واجب نہ ہوگی، البتہ اگر سائل نے آگے فروخت کرنے کی نیت سے مکان خریدا تھا، تو اس صورت میں مکان کی موجودہ قیمت لگا کر اس میں سے واجب الاداء  50 لاکھ منہا کرکے بقیہ ویلیو کو نصاب میں شامل کرکے کل مجموعہ کا چالیسواں حصہ بطور زکات ادا کرنا سائل پر لازم ہوگا۔ 

فتح القدیر میں ہے: 

الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب ۔۔۔وتشترط نية التجارة لأنه لما لم تكن للتجارة خلقة فلا يصير لها إلا بقصدها فيه ...

 وفي الباب أحاديث مرفوعة وموقوفة، فمن المرفوعة: ما أخرجه أبو داود عن سمرة بن جندب  أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يأمرنا أن نخرج الصدقة من الذي يعد للبيع» اهـ. سكت عليه أبو داود ثم المنذري، وهذا تحسين منهما."

( كتاب الزكوة ،باب زكوة المال ج :2  ، ص :  218 ، ط :دار الفكر) 

 فتاوی ہندیہ میں ہے: 

"وأما شروط وجوبها فمنها الحرية حتى لا تجب الزكاة على العبد .... (ومنها فراغ المال) عن حاجته الأصلية فليس في دور السكنى. (ومنها الفراغ عن الدين) قال أصحابنا - رحمهم الله تعالى : كل دين له مطالب من جهة العباد يمنع وجوب الزكاة سواء كان الدين للعباد كالقرض وثمن البيع وضمان المتلفات وأرش الجراحة، وسواء كان الدين من النقود أو المكيل أو الموزون أو الثياب أو الحيوان وجب بخلع أو صلح عن دم عمد، وهو حال أو مؤجل أو لله - تعالى - كدين الزكاة  ... ولو كان الدين خراج أرض يمنع وجوب الزكاة بقدره."

 (كتاب الزكاة ، الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها، ج :1 ، ص : 172 ،ط : دا ر الفکر) 

التعريفات الفقهيةمیں ہے :  

"التجارة: عبارة عن شراء شيء ليبيع بالربح أو تقليب المال لغرض الربح."

(ص : 52 ، ط : دار الكتب العلمية)

دستور العلماء  میں ہے:

"التجارة: شراء شيء ليباع بالربح."

(‌‌باب التاء مع الجيم ، ج : 1 ، ص : 188 ، ط :دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209202379

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں