بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

گھر میں بلی پالنے اور اس کو گود میں اٹھانے، پیار کرنے کا حکم/ بلی اگر کپڑوں سے لگ جائے تو کپڑے ناپاک ہوتے ہیں یا نہیں؟


سوال

آج کل بلی پالنے کا  رواج چل پڑا ہے،  ایک خوبصورت بلی گھر میں رکھ لیتے ہیں، جس کو بچے بڑے گود میں اٹھائے پھرتے ہیں۔

1۔  کیا اس طرح بلی کا گھر میں رکھنا درست ہے؟

2۔ کیا بلی کا جوٹھا استعمال کرنا درست ہے؟

3۔ بلی اگر گیلی ہو کر کپڑوں کے ساتھ لگے، تو ان کپڑوں میں نماز ہو جائے گی؟

4۔ بلی کو اپنے بستر پر سلانا، بٹھانا، اس کا منہ چومنا جائز ہے؟

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں شرعاً بلی پالنے میں شرعا  کوئی حرج نہیں ہے۔

2۔ بلی نے اگر کسی جانور کو کھانے کے فوراً بعد پانی میں منہ نہ ڈالا ہو، تو اس صورت میں بلی کا جوٹھا ناپاک نہیں ہوتا، شرعاً کراہتِ تنزیہیہ کے ساتھ اسے استعمال کرنا جائز ہے۔

3۔  بلی کے جسم پر اگر کوئی ظاہری  نجاست  نہ ہو، اور اس کا جسم پسینہ یا پاک پانی کی وجہ سے تر ہو، تو  اس کا جسم  کپڑوں سے لگ جانے کی صورت میں کپڑے ناپاک نہیں ہوں گے، اور ایسے کپڑوں میں نماز ہوجائے گی۔

4۔  بلی کو بستر پر سلانے، بٹھانے کی گنجائش  ہے، البتہ بلی کا منہ چومنا فطرت و شرافتِ انسانی کے خلاف ہے۔

’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ میں ہے:

’’سوال:..... میری ایک دوست ہے، جو میرے گھر آئی تھی، بلی سے بھاگ کر کرسی پر پیر اٹھا کر بیٹھ گئی، میں نے پوچھا کیوں؟ تو کہنے لگی کہ بلی اگر کپڑوں سے لگ جائے تو کپڑے ناپاک ہوجاتے ہیں، اور نماز نہیں ہوتی، جب کہ میری دادی نے کہا کہ بلی اگر سوکھی ہو، تو نماز ہوسکتی ہے، ہاں! اگر بلی گیلی ہو، تو کپڑے ناپاک ہوجاتے ہیں، آپ اسلام کی روشنی میں اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

جواب:..... بلی کے ساتھ کپڑے لگنے سے ناپاک نہیں ہوتے، خواہ بلی سوکھی ہو یا گیلی ہو، بشرطیکہ اس کے بدن پر کوئی ظاہری نجاست نہ ہو۔‘‘

(نجاست اور پاکی کے مسائل، ج: ۳، ص: ۱۷۸، ط: مکتبہ لدھیانوی)

مرقاة المفاتيح  میں ہے:

"سبب تلقيبه بذلك ما رواه ابن عبد البر عنه أنه قال: كنت أحمل يوما هرة ‌في ‌كمي، فرآني رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: (ما هذه؟) : فقلت: هرة، فقال: (يا أبا ‌هريرة) . وفي رواية ابن إسحاق: وجدت هرة، وحملتها ‌في ‌كمي، فقيل لي: ما هذه؟ فقلت: هرة، فقيل لي: أنت أبو ‌هريرة. ورجح بعضهم الأول، وقيل: وكان يلعب بها وهو صغير، وقيل: كان يحسن إليها، وقيل: المكني له بذلك والده."

(كتاب الإيمان، ج: ١، ص: ٦٩، ط: دار الفكر، بيروت)

وفیہ ایضا:

"وعن داود بن صالح بن دينار، عن أمه، أن مولاتها أرسلتها بهريسة إلى عائشة. قالت: فوجدتها تصلي، فأشارت إلي: أن ضعيها، فجاءت هرة، فأكلت منها، فلما انصرفت عائشة من صلاتها، أكلت من حيث أكلت الهرة. فقالت: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إنها ليست بنجس، إنها من الطوافين عليكم ". وإني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم توضأ بفضلها.

وروى أحمد والدارقطني والحاكم أنه صلى الله تعالى عليه وسلم دعي لدار فأجاب، ولأخرى فلم يجب، فقيل له في ذلك، فقال: (إن في تلك كلبا) فقيل: وفي هذه هرة. فقال: " إن الهرة ليست بنجسة ". قال العلماء: استحب ‌اتخاذ ‌الهرة وتربيتها أخذا من الأحاديث."

(کتاب الطهارة، باب أحكام المياه، ج: ٢، ص: ٤٥٦، ط: دار الفكر، بيروت)

رد المحتار على الدر المختار  میں ہے:

"(وصح بيع الكلب) ولو عقورا (والفهد) والفيل والقرد (والسباع) بسائر أنواعها حتى الهرة وكذا الطيور (علمت أو لا) سوى الخنزير وهو المختار للانتفاع بها وبجلدها.

(قوله حتى الهرة) لأنها تصطاد الفأر والهوام المؤذية فهي منتفع بها فتح."

(کتاب البیوع، باب المتفرقات من أبوابها، ج: ٥، ص: ٢٢٦، ط: سعيد)

حيوة الحيوان للدميري  میں ہے:

"قال ابن المنذر: أجمعت الأمة على جواز اتخاذها، ورخص في بيعها ابن عباس والحسن وابن سيرين والحكم وحماد ومالك والثوري والشافعي وإسحاق وأبو حنيفة، وسائر أصحاب الرأي . . . وسؤرها طاهر لطهارة عينها."

(باب الهاء، الهر، ج: ٢، ص: ٥٢٤ - ٥٢٥، ط: دار الكتب العلمية)

وفیہ ایضا:

"وإذا ألف السنور منزلا، منع غيره من السنانير الدخول إلى ذلك المنزل، وحاربه أشد محاربة وهو من جنسه، علما منه بأن أربابه ربما استحسنوه وقدموه عليه، أو شاركوا بينه وبينه في المطعم، وإن أخذ شيئا مما يخزنه أصحاب المنزل عنه هرب علما منه بما يناله منهم من الضرب. وإذا طردوه تملقهم وتمسح بهم، علما منه بأنه يخلصه التملق ويحصل له العفو والإحسان."

(باب السين، سنور، ج: ٢، ص: ٤٩، ط: دار الكتب العلمية)

الفتاوي الهندية  میں ہے:

"وسؤر حشرات البيت كالحية والفأرة والسنور مكروه كراهة تنزيه هو الأصح. كذا في الخلاصة. ويكره أن تلحس الهرة في كف إنسان ثم يصلي قبل غسلها أو يأكل من بقية الطعام الذي أكلت منه. كذا في التبيين وإنما يكره ذلك في حق الغني؛ لأنه يقدر على بدله أما في حق الفقير فلا يكره للضرورة. كذا في السراج الوهاج. فإن أكلت فأرة وشربت الماء من فورها يتنجس وإن مكثت ساعة أو ساعتين ثم شربت لا يتنجس هو الصحيح. كذا في الظهيرية."

(کتاب الطهارة، الباب الثالث في المياه، ج: ١، ص: ٢٤، ط: رشيدية)

فقط واللہ تعالیٰ اعلم


فتوی نمبر : 144604101450

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں