بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر میں محرم کے ایک ساتھ نماز پڑھنے کا حکم


سوال

 گھر میں اپنی بیوی یا ماں کے قریب نماز پڑھنے سے نماز میں کوئی نقصان آتا ہے یا نہیں؟ جب کہ دونوں کی  نماز علیحدہ علیحدہ ہو اور دونوں شانہ بشانہ نماز پڑھ رہے ہوں، نیز اگر فاصلہ ضروری ہو تو کتنا فاصلہ کرنا پڑے گا ؟

جواب

واضح رہے کہ شوہر اور بیوی یا ماں اور بیٹا اگر ساتھ کھڑے ہو کر اپنی اپنی نماز پڑھیں تو اس سے کسی کی نماز فاسد نہیں ہوتی، لیکن اس طرح نماز پڑھنا مکروہ ہے، البتہ اگر شوہر  یا بیٹا  آگے کھڑا ہو اور بیوی یا والدہ  پیچھے تو ایک کمرے میں دونوں کے لیے  اپنی اپنی نماز پڑھنا بلاکراہت جائز ہے ،  اگر کمرے میں آگے پیچھے کھڑے ہونے کی جگہ نہ ہو تو درمیان میں کوئی حائل ہو یا  کم از کم ایک آدمی کے کھڑے ہونے کا فاصلہ ہو تو اس صورت میں بھی نماز بلا کراہت درست ہوگی۔

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے :

"ومحاذاة المشتهاة" بساقها وكعبها في الأصح ولو محرما له أو زوجة اشتهت ولو ماضيا كعجوز شوهاء في أداء ركن عند محمد أو قدره عند أبي يوسف "في صلاة" ولو بالإيماء "مطلقة" فلا تبطل صلاة الجنازة إذ لا سجود لها "مشتركة تحريمة" باقتدائهما بإمام أو اقتدائها به۔۔۔۔۔

قوله: "مشتركة" احترز به عن محاذاة المصلية لمصل ليس هو في صلاتها حيث تكره ولا تفسد".

(کتاب الصلاۃ،باب ما یفسد الصلاۃ،ص:329،دارالکتب العلمیۃ)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"(ومنها) أن يكونا بلا حائل حتى لو كانا في مكان متحد بأن كانا على الأرض أو على الدكان إلا أن بينهما أسطوانة لا تفسد صلاته. هكذا في الكافي وأدنى الحائل قدر مؤخر الرحل وغلظه غلظ الأصبع والفرجة تقوم مقام الحائل وأدناه قدر ما يقوم فيه الرجل كذا في التبيين".

(کتاب الصلاۃ،الباب الخامس فی الامامۃ،ج:1،ص:89،دارالفکر)

فتاوی محمودیہ میں ہے :

"سوال:زید اور اس کی بیوی  ایک مصلی پر ایک دوسرے سے مل کر نماز گزارتے ہیں  اور نیت بھی ہر ایک کی علیحدہ ہے ، بعض علماء فرماتے ہیں کہ نماز فاسد ہوجاتی ہے اور بعض علماء فرماتے ہیں کہ نماز درست ہے ،کس کا قول صحیح ہے اور کس  امام کے قول پر فتوی ہے ؟

الجواب حامدا ومصلیا:

جب دونوں کی نماز  علیحدہ علیحدہ ہے  تب تو ایسی صورت میں کسی کی نماز فاسد نہیں  ہوتی  ہے ، مکروہ ہوتی ہے ۔"

(کتاب الصلاۃ،باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا،ج:6،ص:599،فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144508100950

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں