بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر میں بلی نے نجاست کردی تو گھر کی چیزوں کو پاک کرنے کا طریقہ


سوال

ہم دو تین دن کے لیے گھر سے باہر گئے اور گھر بند رہا، واپس آئے تو گھر میں ایک بلی نظر آئی جو شاید اس وقت گھر میں داخل ہوگئی جب ہم جانے کے لیے سامان رکھ رہے تھے، ایک کمرے میں گدے پر اس کا پاخانہ پڑا تھا اور کچن کے کچھ برتن گرے ہوئے تھے، ہم گھر کے تین چار کمرے کھلے چھوڑ گئے تھے جہاں کتابیں، کھلونے، فرنیچر، بہت کچھ تھا، اب کس کس چیز کو اور کیسے پاک کیا جائے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جہاں جہاں بلی کا پاخانہ اور پیشاب لگنا یقینی ہو اس جگہ کو دھو کر پاک کرلیا جائے، اس لیے کہ بلی کا پیشاب اور پاخانہ نجس ہے۔ اور جن کھانے پینے کی چیزوں پر بلی کا منہ لگانا یقینی طور پر معلوم ہو  تو صرف بلی کے منہ والی جگہ کو بلا ضرورت کھانا یا پینا مکروہ تنزیہی ہے، اس کے علاوہ باقی حصہ پاک ہے، اس کا استعمال بلا کراہت درست ہے۔

اور جن چیزوں پر بلی کا پیشاب، پاخانہ یا لعاب لگنا یقینی نہ ہو ان چیزوں کو پاک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

چیزوں کو پاک کرنے کا طریقہ:

1۔   کپڑے، چادر وغیرہ پر اگر جسم والی نجاست لگی ہو جیسے پاخانہ، تو اسے اچھی طرح دھو لیا جائے یہاں تک کہ نجاست ہٹ جائے اور دھبہ چلا جائے، چاہے جتنی دفعہ دھونا پڑے، البتہ اگر ایک دو مرتبہ دھونے سے نجاست ہٹ جائے تو پورے تین دفعہ دھو لینا بہتر ہے۔

2۔   اگر پیشاب کے مثل کوئی نجاست لگی ہو تو کپڑے وغیرہ کو تین مرتبہ دھویا جائے اور ہر مرتبہ نچوڑا جائے، تیسری مرتبہ پوری طاقت سے نچوڑا جائے تو کپڑا پاک ہوجائے گا۔

3۔   جن چیزوں کو دھو کر نچوڑنا ممکن نہ ہو جیسے گدا، قالین، لکڑی کا فرنیچر، برتن، کھلونے، جوتے وغیرہ، تو ان  کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جس جگہ نجاست لگی ہو اس جگہ کو تین مرتبہ دھوئیں، پہلی مرتبہ دھو کر ٹھہر جائیں یہاں تک کہ اس میں سے پانی ٹپکنا بند ہوجائے، پھر دوسری مرتبہ دھو کر اتنی دیر ٹھہر جائیں کہ پانی ٹپکنا  بند ہوجائے، اسی طرح تیسری مرتبہ دھونے کے بعد جب پانی ٹپکنا بند ہوجائے تو وہ چیزیں پاک ہوجائیں گی۔

4۔   پانی سے دھونے کی صورت میں جن چیزوں کے خراب ہونے کا اندیشہ ہو جیسے کھلونے اور کتابیں وغیرہ، انہیں پیٹرول سے بھی دھویا جاسکتا ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ)

5۔   اگر سونا، چاندی، لوہا، تانبا یا شیشہ سے بنی ہوئی چیزوں پر نجاست لگی ہو تو انہیں خوب پونچھ کر یا رگڑ کر صاف کرنے سے یہ چیزیں پاک ہوجائیں گی۔ لیکن اگر ان چیزوں پر نقش و نگار بنے ہوں تو انہیں اسی طریقہ سے تین مرتبہ دھونا ضروری ہوگا۔

(بہشتی زیور، حصہ دوم، ص:86، ط: دارالاشاعت)

الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:1، ص:220، ط: دار الفكر):

’’(قوله في بول فأرة في الأصح) و سيذكر في الأنجاس أن عليه الفتوى، و أن خرأها لا يفسد ما لم يظهر أثره؛ و أن بول السنور عفو في غير أواني الماء و عليه الفتوى. اهـ. أقول: و في الخانية أن بول الهرة و الفأرة و خرأهما نجس في أظهر الروايات يفسد الماء و الثوب.اهـ و لعلهم رجحوا القول بالعفو للضرورة.‘‘

الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:1، ص:224، ط: دار الفكر):

’’(و) سؤر هرة (و دجاجة مخلاة) و إبل و بقر جلالة، فالأحسن ترك دجاجة ليعم الإبل و البقر و الغنم، قهستاني، (و سباع طير) لم يعلم ربها طهارة منقارها (و سواكن بيوت) طاهر للضرورة (مكروه) تنزيها في الأصح إن وجد غيره و إلا لم يكره أصلا كأكله لفقير.‘‘

و قال في الرد:

’’(قوله طاهر للضرورة) بيان ذلك أن القياس في الهرة نجاسة سؤرها؛ لأنه مختلط بلعابها المتولد من لحمها النجس، لكن سقط حكم النجاسة اتفاقا بعلة الطواف المنصوصة بقوله صلى الله عليه وسلم: ’’إنها ليست بنجسة، إنها من الطوافين عليكم والطوافات‘‘، أخرجه أصحاب السنن الأربعة و غيرهم، و قال الترمذي حسن صحيح؛ يعني أنها تدخل المضايق و لازمه شدة المخالطة بحيث يتعذر صون الأواني منها، و في معناها سواكن البيوت للعلة المذكورة، فسقط حكم النجاسة للضرورة و بقيت الكراهة لعدم تحاميها النجاسة، و أما المخلاة فلعابها طاهر فسؤرها كذلك، لكن لما كانت تأكل العذرة كره سؤرها و لم يحكم بنجاسته للشك، حتى لو علمت النجاسة في فمها تنجس، و لو علمت الطهارة انتفت الكراهة...

(قوله مكروه) لجواز كونها أكلت نجاسة قبيل شربها. و أفاد في الفتح أنه لو احتمل تطهيرها فمها زالت الكراهة حيث قال: و يحمل إصغاؤه - صلى الله عليه وسلم - الإناء للهرة على زوال ذلك التوهم، بأن كانت في مرأى منه في زمان يمكن فيه غسلها فمها بلعابها. و أما على قول محمد فيمكن بمشاهدة شربها من ماء كثير أو مشاهدة قدومها عن غيبة يجوز معها ذلك، فيعارض هذا التجويز بتجويز أكلها نجسا قبيل شربها فيسقط فتبقى الطهارة دون كراهة؛ لأن الكراهة ما جاءت إلا من ذلك التجويز و قد سقط، و على هذا لا ينبغي إطلاق كراهة أكل فضلها و الصلاة إذا لحست عضوا قبل غسله كما أطلقه شمس الأئمة و غيره، بل يقيد بثبوت ذلك التوهم؛ أما لو كان زائلا بما قلنا فلا. اهـ و أقره في البحر و شرح المقدسي، و هو خلاف ما قدمناه عن المنية تأمل (قوله تنزيها) قيد به لئلا يتوهم التحريم...

(قوله كأكله لفقير) أي أكل سؤرها: أي موضع فمها، و ما سقط منه من الخبز و نحوه من الجامدات؛ لأنه لا يخلو من لعابها، و ليس المراد أكل ما بقي أي مما لم يخالطه لعابها بخلاف المائع كما أوضحه في الحلية. و أفاد الشارح كراهته لغني؛ لأنه يجد غيره، و هذا عند توهم نجاسة فمها كما قدمناه عن الفتح قريبا. [فرع] تكره الصلاة مع حمل ما سؤره مكروه كالهرة. اهـ بحر عن التوشيح. قلت: و ينبغي تقييده بالتوهم أيضا كما علمته مما مر، و يظهر منه كراهة الصلاة بثوب أصابه السؤر المكروه كما ذكره في الحلية.‘‘

الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:1، ص:319، ط: دار الفكر):

’’و في الأشباه بول السنور في غير أواني الماء عفو و عليه الفتوى.‘‘

و قال في الرد:

’’(قوله: و كذا بول الفأرة إلخ) اعلم أنه ذكر في الخانية أن بول الهرة و الفأرة و خرأها نجس في أظهر الروايات يفسد الماء و الثوب. و لو طحن بعر الفأرة مع الحنطة و لم يظهر أثره يعفى عنه للضرورة. و في الخلاصة: إذا بالت الهرة في الإناء أو على الثوب تنجس، و كذا بول الفأرة، و قال الفقيه أبو جعفر: ينجس الإناء دون الثوب. اهـ. قال في الفتح: و هو حسن لعادة تخمير الأواني، و بول الفأرة في رواية لا بأس به، و المشايخ على أنه نجس لخفة الضرورة بخلاف خرئها، فإن فيه ضرورة في الحنطة. اهـ. و الحاصل أن ظاهر الرواية نجاسة الكل. لكن الضرورة متحققة في بول الهرة في غير المائعات كالثياب.‘‘

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144203200630

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں