گھر میں جو سامان استعمال کی نیت سے رکھا ہو اور چھ سال سے وہ استعمال میں نہ ہو تو اس پر زکات واجب ہوگی؟
زکات فرض ہونے کے لیے ضرورت سے زائد سامان یا مال ہونا کافی نہیں ہے، بلکہ ضرورت سے زائد مال یا سامان کے لیے نامی (بڑھنے والا) ہونا ضروری ہے، اور مالِ نامی سے مراد سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت اور سائمہ (سال کا اکثر حصہ خود چرنے والے) جانور ہیں، مالِ نامی پر بھی مخصوص نصاب پورا ہونے اور سال گزرنے کے بعد زکات واجب ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر کپڑے یا برتن وغیرہ تجارت کے لیے نہیں ہیں تو زکات ادا کرنے کے لیے ان کی قیمت نہیں لگائی جائے گی۔
البتہ اگر کسی شخص (مرد یا عورت) کے پاس ضرورت سے زائد کپڑے یا برتن وغیرہ ہوں (جو سال میں ایک مرتبہ بھی استعمال نہ ہوتے ہوں) اور اس سامان کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر یا اس سے زائد ہو تو ایسے شخص پر صدقہ فطر اور قربانی لازم ہوتی ہے، اور یہ شخص زکات وصول نہیں کرسکتا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 259):
’’ (وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام) ... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) ... (و) فارغ (عن حاجته الأصلية) لأن المشغول بها كالمعدوم ... (نام ولو تقديرا) بالقدرة على الاستنماء ولو بنائبه.‘‘
الفتاوى الهندية (1/ 191):
"وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144206200907
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن