بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر میں جمعہ کی نماز پڑھنے کی صورت میں گھر کی خواتین کا جمعہ کی جماعت میں شامل ہونے کا حکم


سوال

آج کل کے حالات میں اگر حکومتِ وقت مسجد میں جمعہ کے اجتماع پربابندی لگاد ے اور اسی دوران اگر کوئی اپنے گھر میں جمعہ کی نماز ادا کرے اور اس کے ساتھ اس جماعت میں عورتیں بھی شریک ہوجائیں تو اس صورت میں عورتوں کی بھی جمعہ کی نماز ادا ہوجائے گی یا نہیں؟ حال یہ ہے کہ عورتوں پرجمعہ کی نماز فرض نہیں ہے۔

جواب

عام حالات میں بلا عذر گھروں میں جمعہ کی نماز پڑھنا مکروہ ہے، البتہ اگر کسی علاقے میں مساجد میں جمعہ کے اجتماع پر پابندی ہے تو  وہاں کے صحت مند افراد کو چاہیے کہ وہ مساجد کے علاوہ کسی ایسی جگہ میں (خواہ گھر یا کوئی اور جگہ) جہاں چار یا چار سے زیادہ بالغ مرد   جمع ہوسکیں اور ان لوگوں کی طرف سے دیگر  لوگوں کی شرکت کی ممانعت نہ ہو، جمعہ قائم کرنے کی کوشش کریں، جس جگہ نمازِ جمعہ ادا کررہے ہوں وہاں کا دروازہ کھلا رکھیں؛ تاکہ اگر کوئی نماز میں شریک ہونا چاہے تو شریک ہوسکے۔

باقی شہر، فنائے شہر یا قصبہ میں جمعہ کی نماز میں چوں کہ مسجد کا ہونا شرط نہیں ہے؛ لہٰذا امام کے علاوہ کم از کم تین بالغ مرد مقتدی ہوں تو  بھی جمعہ کی نماز صحیح ہوجائے گی؛ پس جمعہ کا وقت داخل ہونے کے بعد پہلی اذان دی جائے، پھر سنتیں ادا کی جائیں، پھر امام منبر یا کرسی وغیرہ پر بیٹھ جائے، اس کے سامنے دوسری اذان دی جائے، پھر امام کھڑے ہوکر دو خطبے پڑھ کر دو رکعت نمازِ جمعہ  پڑھا دے۔ عربی خطبہ اگر یاد نہ ہو تو  کوئی خطبہ دیکھ کر پڑھ لیا جائے، ورنہ عربی زبان میں حمد و صلاۃ اور قرآنِ پاک کی چند آیات پڑھ کر دونوں خطبے دے دیں۔

مذکورہ شرائط کے ساتھ اگر جمعہ کی نماز گھر میں ادا کی جائے اور گھر کی خواتین بھی مردوں کی صف کے پیچھے کھڑے ہوکر اس میں شرکت کرلیں تو ان کی بھی جمعہ کی نماز ادا ہوجائے گی اور ان کو الگ سے ظہر پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوگی, لیکن گھر  سے باہر کی خواتین کا اس گھر میں آکر جماعت میں شرکت کرنا مکروہ ہوگا۔

شہر، فنائے شہر یا قصبہ میں اگر بالغ مرد چار کی تعداد میں جمع نہ ہوسکیں تو ظہر کی نماز جماعت کے بغیر انفرادی طور پر  پڑھ لیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 151):
"(و) السادس: (الجماعة) وأقلها ثلاثة رجال (ولو غير الثلاثة الذين حضروا) الخطبة (سوى الإمام) بالنص لأنه لا بد من الذاكر وهو الخطيب وثلاثة سواه بنص - {فاسعوا إلى ذكر الله} [الجمعة: 9]-

واحترز بالرجال عن النساء والصبيان فإن الجمعة لا تصح بهم وحدهم لعدم صلاحيتهم للإمامة فيها بحال، بحر عن المحيط".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 154):
"(وفاقدها) أي هذه الشروط أو بعضها (إن) اختار العزيمة و (صلاها وهو مكلف) بالغ عاقل (وقعت فرضا) عن الوقت لئلا يعود على موضوعه بالنقض وفي البحر هي أفضل إلا للمرأة.

(قوله: وفي البحر إلخ) أخذه في البحر من ظاهر قولهم: إن الظهر لهم رخصة فدل على أن الجمعة عزيمة، وهي أفضل إلا للمرأة لأن صلاتها في بيتها أفضل وأقره في النهر، ومقتضى التعليل أنه لو كان بيتها لصيق جدار المسجد بلا مانع من صحة الاقتداء تكون أفضل لها أيضًا". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144108200143

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں