بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر میں جمعہ کی جماعت قائم کرنے کی صورت میں گھر میں جمعہ کی پہلی اذان دینے کا حکم


سوال

پوچھنا یہ تھا کہ جیسے کہ آج کل کے حالات کی وجہ سے گھروں میں نماز جمعہ پڑھیں جارہی ہے اور مسجدوں میں بھی تین سے پانچ بندوں کی اجازت ہے جمعہ کی پہلی اذان مسجد میں دی جاتی ہے تو اس صورت میں جو لوگ گھر میں جمعہ پڑھ رہے ہے تو ان کے کیلئے اذان دینا ضروری ہے یا نہیں؟اگر کسی نے مسجد میں اذان کے بعد بھی گھر میں بھی اذان  دی تو اسکا کیا حکم ہے؟

جواب

عام حالات میں بلا عذر گھروں میں جمعہ کی نماز پڑھنا مکروہ ہے، البتہ اگر کسی علاقے میں مساجد میں جمعہ کے اجتماع پر پابندی ہے تو  وہاں کے صحت مند افراد کو چاہیے کہ وہ مساجد کے علاوہ کسی ایسی جگہ میں (خواہ گھر یا کوئی اور جگہ) جہاں چار یا چار سے زیادہ بالغ مرد   جمع ہوسکیں اور ان لوگوں کی طرف سے دیگر  لوگوں کی شرکت کی ممانعت نہ ہو، جمعہ قائم کرنے کی کوشش کریں، جس جگہ نمازِ جمعہ ادا کررہے ہوں وہاں کا دروازہ کھلا رکھیں؛ تاکہ اگر کوئی نماز میں شریک ہونا چاہے تو شریک ہوسکے۔

باقی شہر، فنائے شہر یا قصبہ میں جمعہ کی نماز میں چوں کہ مسجد کا ہونا شرط نہیں ہے؛ لہٰذا امام کے علاوہ کم از کم تین بالغ مرد مقتدی ہوں تو  بھی جمعہ کی نماز صحیح ہوجائے گی؛ پس جمعہ کا وقت داخل ہونے کے بعد پہلی اذان دی جائے، پھر سنتیں ادا کی جائیں، پھر امام منبر یا کرسی وغیرہ پر بیٹھ جائے، اس کے سامنے دوسری اذان دی جائے، پھر امام کھڑے ہوکر دو خطبے پڑھ کر دو رکعت نمازِ جمعہ  پڑھا دے۔ عربی خطبہ اگر یاد نہ ہو تو  کوئی خطبہ دیکھ کر پڑھ لیا جائے، ورنہ عربی زبان میں حمد و صلاۃ اور قرآنِ پاک کی چند آیات پڑھ کر دونوں خطبے دے دیں۔

جس جگہ جمعے کی نماز قائم کی جائے جمعے کی دونوں اذانیں وہاں دی جائیں گی، لہٰذا اگر گھر میں جمعے کی نماز ادا کرتے وقت پہلی اذان دی گئی ہے تو درست کیا۔

شہر، فنائے شہر یا قصبہ میں اگر بالغ مرد چار کی تعداد میں جمع نہ ہوسکیں تو ظہر کی نماز جماعت کے بغیر انفرادی طور پر  پڑھ لیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 395)
(بخلاف مصل) ولو بجماعة (في بيته بمصر) أو قرية لها مسجد؛ فلا يكره تركهما إذ أذان الحي يكفيه

(قوله: في بيته) أي فيما يتعلق بالبلد من الدار والكرم وغيرهما قهستاني. وفي التفاريق: وإن كان في كرم أو ضيعة يكتفي بأذان القرية أو البلدة إن كان قريبا وإلا فلا. وحد القرب أن يبلغ الأذان إليه منها اهـ إسماعيل. والظاهر أنه لا يشترط سماعه بالفعل، تأمل. .
(قوله: لها مسجد) أي فيه أذان وإقامة، وإلا فحكمه كالمسافر صدر الشريعة.
(قوله: إذ أذان الحي يكفيه) لأن أذان المحلة وإقامتها كأذانه وإقامته؛ لأن المؤذن نائب أهل المصر كلهم كما يشير إليه ابن مسعود حين صلى بعلقمة والأسود بغير أذان ولا إقامة، حيث قال: أذان الحي يكفينا، وممن رواه سبط ابن الجوزي فتح: أي فيكون قد صلى بهما حكما، بخلاف المسافر فإنه صلى بدونهما حقيقة وحكما؛ لأن المكان الذي هو فيه لم يؤذن فيه أصلا لتلك الصلاة كافي. وظاهره أنه يكفيه أذان الحي وإقامته وإن كانت صلاته فيه آخر الوقت تأمل، وقد علمت تصريح الكنز بندبه للمسافر وللمصلي في بيته في المصر، فالمقصود من كفاية أذان الحي نفي الكراهة المؤثمة. قال في البحر: ومفهومه أنه لو لم يؤذنوا في الحي يكره تركهما للمصلي في بيته، وبه صرح في المجتبى، وأنه لو أذن بعض المسافرين سقط عن الباقين كما لا يخفى.


فتوی نمبر : 144108200570

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں