بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر میں فوتگی کے بعد پہلی عید کے دن نئے کپڑے پہننے کا حکم


سوال

کسی گھر میں فوتگی ہوجانےکےبعد آنے والی عید کے دن  نئے کپڑے پہننے کا حکم کیا ہے؟

جواب

شرعی اعتبار سے شوہر کے علاوہ کسی کے انتقال کے بعد تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں؛ اس لیے فوت شدگان کی پہلی عید پر باقاعدہ سوگ منانا یا کوئی خلافِ شرع کام کرنا جائز نہیں ہے۔لہٰذا اگر وفات کو تین دن ہوچکے ہوں تو پہلی عید والے دن بھی معمول کے مطابق عید کی خوشیاں منانا اور عید کے نئے کپڑے پہننے سمیت دیگر امور انجام دینا جائز، بلکہ معاشرے میں رائج سوگ کی بدعت کی خلاف ورزی کی نیت سے مستحسن ہے، چالیسویں اور پہلی عید وغیرہ تک سوگ منانے کا التزام کرنا شریعتِ  مطہرہ کی تعلیمات کے مخالف ہونے کی وجہ سے قابلِ ترک ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مردوں کی تدفین اور تعزیت کرنے والوں کو رخصت کرکے حسبِ معمول اپنے کام کاروبار میں مشغول ہوجاتے تھے۔ 

صحيح البخاري (2/ 78):

"حدثنا مسدد، حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا سلمة بن علقمة، عن محمد بن سيرين، قال: توفي ابن لأم عطية رضي الله عنها، فلما كان اليوم الثالث دعت بصفرة، فتمسحت به، وقالت: «نهينا أن نحد أكثر من ثلاث إلا بزوج»".

ترجمہ: محمد ابن سیرین سے روایت ہے کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کا ایک بیٹا فوت ہوگیا تو فوتگی کے تیسرے دن انہوں نے زرد رنگ (جو بطورِ  خوش بوعورتیں استعمال کرتی تھیں) منگوایا، اور اپنے چہرے اور ہاتھوں وغیرہ پر لگایا اور فرمایا کہ ہمیں شوہر کے علاوہ کسی اور کے لیے تین دن سے زیادہ سوگ منانے سے منع کیا گیا ہے۔

صحيح البخاري (2/ 78):

"حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، حدثنا أيوب بن موسى، قال: أخبرني حميد بن نافع، عن زينب بنت أبي سلمة، قالت: لما جاء نعي أبي سفيان من الشأم، دعت أم حبيبة رضي الله عنها بصفرة في اليوم الثالث، فمسحت عارضيها، وذراعيها، وقالت: إني كنت عن هذا لغنية، لولا أني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر، أن تحد على ميت فوق ثلاث، إلا على زوج، فإنها تحد عليه أربعة أشهر وعشراً»".

ترجمہ: حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو ان کے والد حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر شام سے پہنچی، تو حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے تیسرے دن زرد رنگ (جو بطورِ  خوش بوعورتیں استعمال کرتی تھیں) منگوایا، اور اپنے چہرے اور ہاتھوں پر لگایا، اور فرمایا: میں اس سے مستغنی ہوں، (یعنی مجھے بناؤ سنگھار کی ضرورت یا شوق نہیں ہے، اس لیے میں یہ کام نہ کرتی) اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ: اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے، سوائے شوہر کی وفات پر کہ اس میں چار ماہ دس دن سوگ منائے۔ 

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (8/ 64):

" (باب حد المرأة على غير زوجها)

أي: هذا باب في بيان إحداد المرأة على غير زوجها، والإحداد، بكسر الهمزة من: أحدت المرأة على زوجها تحد فهي محدة، إذا حزنت عليه ولبست ثياب الحزن وتركت الزينة، وكذلك حدت المرأة من الثلاثي تحد من باب: نصر ينصر، وتحد، بكسر الحاء من باب: ضرب يضرب، فهي: حادة. وقال الجوهري: أحدت المرأة، أي: امتنعت من الزينة والخضاب بعد وفاة زوجها، وكذلك حدت حدادا، ولم يعرف الأصمعي إلا: أحدت، فهي محدة. وفي بعض النسخ: باب حداد المرأة، بغير همزة على لغة الثلاثي. وفي بعضها: باب حد المرأة، من مصدر الثلاثي، وأبيح للمرأة الحداد لغير الزوج ثلاثة أيام وليس ذلك بواجب، وقال ابن بطال: أجمع العلماء على أن من مات أبوها أو ابنها وكانت ذات زوج وطالبها زوجها بالجماع في الثلاثة الأيام التي أبيح لها الإحداد فيها أنه يقضي له عليها بالجماع فيها، وقوله: (على غير زوجها) يشمل كل ميت غير الزوج سواء كان قريبا أو أجنبيا، وأما الحداد لموت الزوج فواجب عندنا، سواء كانت حرة أو أمة، وكذلك يجب على المطلقة طلاقا بائنا مطلقا. وقال مالك والشافعي وأحمد: لا يجب، ولا يجب على ذمية ولا صغيرة عندنا، خلافا لهم. فإن قلت: لم يقيد في الترجمة بالموت؟ قلت: قال بعضهم: لم يقيده في الترجمة بالموت لأنه مختص به عرفا، وظاهر الترجمة ينافي ما قاله، فكان البخاري لايرى أنه مختص به عنده، فترك التقييد به". 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201351

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں