بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر میں بیوی اور بچوں کے ساتھ تراویح ادا کرنا اور اس کا طریقہ


سوال

میرے گھر  میں میری زوجہ بالغ بیٹی اور نا بالغ بیٹا ہے, کیا ہم تراویح گھر میں کر سکتے ہیں،  جب کہ ہم میں کوئی حافظ نہیں؟  طریقہ کار سےآگاہ کریں!  میرا مقصد گھر والوں کو دین سے لگاؤ پیدا  کرنا ہے، کیا گھر میں کوئی جگہ مخصوص کرنا یا کوئی بھی جگہ پاک ہو کافی ہے؟ جب کہ ہمارے گھر میں کچھ اثرات بھی ہیں، جیسا کہ جنات یا جادو وغیرہ۔

جواب

تراویح میں ایک قرآنِ مجید ختم کرنا سنت ہے، اور رمضان المبارک کے پورے  مہینہ میں تراویح پڑھنا  ایک الگ سنت ہے، لہذا  کوشش کریں دونوں سنتوں پر عمل کرلیں، ابتدائی  کچھ  دنوں میں کسی حافظ صاحب کے پیچھے قرآنِ مجید مکمل سن لیں، اور اس کے بعد گھر  پر سورت تراویح کا اہتمام کرلیں،  لیکن اگر کسی حافظ کا ملنا مشکل ہو یا کوئی اور عذر ہو  جس کی بنا پر آپ گھر پر ہی باجماعت تراویح کی ترتیب بنالیں تو اس سے آپ کی تراویح کی سنت ادا ہوجائے گی، لیکن ختمِ قرآن کی سنت ادا نہیں ہوگی۔ اس صورت میں بھی اگر گھر کے قریب مسجد ہو اور موجودہ حالات میں مسجد میں جماعت سے نماز کی پابندی نہ ہو تو فرض نماز مسجد میں ادا کرکے تراویح کا اہتمام گھر میں کرلیجیے۔ اور اگر موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر مسجد میں جماعت کے ساتھ فرض نماز کی ادائیگی نہ ہوسکے تو گھر والوں کو فرض نماز کی جماعت کے ساتھ تراویح بھی جماعت سے ادا کرنے کا اہتمام کرلیجیے۔

گھر والوں کے ساتھ  فرض اور تراویح کی جماعت کا طریقہ یہ ہے کہ آپ امامت کریں اور آپ کا نابالغ بیٹا آپ کے دائیں طرف آپ سے ذرا پیچھے ہوکر کھڑا ہوجائے اور آپ کی اہلیہ اور بیٹی پچھلی صف میں کھڑے ہوجائیں۔

اور اس کے لیے آپ ہر رکعت میں آخری پارہ کی مختصر سورتیں پڑھ سکتے ہیں، اور  تراویح کی پہلی دس رکعتوں میں قرآن مجید کی آخری دس سورتیں پڑھ   کر پھر  دوسری دس  رکعات میں دوبارہ ان سورتوں کر پڑھ لینا بھی درست ہے،   اور اگر  کوئی اور سورت  پڑھنا چاہیں یا ایک بڑی سورت سے ہر رکعت میں چند آیات پڑھ لیں تب بھی جائز ہے۔ اور تراویح کے ساتھ وتر نماز بھی اسی ترتیب سے جماعت کے ساتھ ادا کریں۔

نیز گھر میں کسی بھی پاک جگہ نماز ادا کرنے سے نماز ادا ہوجاتی ہے، البتہ گھر میں بھی نماز کے ایک لیے جگہ مختص کرنا زیادہ بہتر ہے۔

فتاوی شامی   میں ہے: 
"(والختم) مرةً سنةٌ ومرتين فضيلةٌ وثلاثاً أفضل. (ولا يترك) الختم (لكسل القوم)، لكن في الاختيار: الأفضل في زماننا قدر ما لايثقل عليهم، وأقره المصنف وغيره. وفي المجتبى عن الإمام: لو قرأ ثلاثاً قصاراً أو آيةً طويلةً في الفرض فقد أحسن ولم يسئ، فما ظنك بالتراويح؟ وفي فضائل رمضان للزاهدي: أفتى أبو الفضل الكرماني والوبري أنه إذا قرأ في التراويح الفاتحة وآيةً أو آيتين لايكره، ومن لم يكن عالماً بأهل زمانه فهو جاهل.

(قوله: الأفضل في زماننا إلخ)؛ لأن تكثير الجمع أفضل من تطويل القراءة، حلية عن المحيط. وفيه إشعار بأن هذا مبني على اختلاف الزمان، فقد تتغير الأحكام لاختلاف الزمان في كثير من المسائل على حسب المصالح، ولهذا قال في البحر: فالحاصل أن المصحح في المذهب أن الختم سنة، لكن لا يلزم منه عدم تركه إذا لزم منه تنفير القوم وتعطيل كثير من المساجد خصوصاً في زماننا، فالظاهر اختيار الأخف على القوم.
(قوله: وفي المجتبى إلخ) عبارته على ما في البحر: والمتأخرون كانوا يفتون في زماننا بثلاث آيات قصار أو آية طويلة حتى لا يمل القوم ولا يلزم تعطيلها، فإن الحسن روى عن الإمام أنه إن قرأ في المكتوبة بعد الفاتحة ثلاث آيات فقد أحسن ولم يسئ، هذا في المكتوبة فما ظنك في غيرها؟ اهـ". (2/ 46، 47 باب الوتر والنوافل، ط: سعید)  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108201616

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں