بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

عذر کی وجہ سے گھر میں باجماعت نماز کرنے کی صورت میں اذان اور اقامت کا حکم


سوال

موجودہ صورتِ حال کے پیش نظر علماء اور حکومت کے متفقہ فیصلہ کے مطابق لوگوں کو گھروں میں نماز پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے، اگر گھر میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی ترتیب کرلیں تو  آیا ان کو اذان اقامت کہنا چاہیے یا کہ محلہ کی مسجد کی اذان کافی ہے؟

جواب

اگر محلہ میں اذان ہورہی ہو اور گھر میں اس کی آواز آرہی ہو تو  گھر  میں پنج وقتہ نمازوں کی جماعت کرواتے وقت اذان و اقامت دینا ضروری نہیں ہے،  بلکہ محلہ کی اذان کافی ہے، البتہ افضل طریقہ یہ ہے کہ گھر میں بھی اذان اور اقامت دونوں یا کم از کم اقامت کے ساتھ ہی جماعت کروائی جائے۔ اور جمعے کی نماز اگر گھر وغیرہ میں (جمعے کی شرائط کی موجودگی میں) ادا کی جارہی ہو تو جہاں جمعے کی نماز ادا کی جائے وہاں جمعے کی دونوں اذانیں دینی ہوں گی۔

جمعے کی شرائط سے مراد یہ ہے کہ شہر، مضافاتِ شہر یا بڑی بستی ہو، امام سمیت کم از کم چار بالغ مرد جماعت میں ہوں، جو لوگ نمازِ جمعہ ادا کررہے ہوں ان کی طرف سے دوسرے آنے والوں کو نماز میں شرکت کی ممانعت نہ ہو، جو لوگ موجود ہوں ان میں سے کوئی جمعے کا خطبہ عربی میں پڑھ سکتاہو، اگرچہ دیکھ کر پڑھے، یا دیکھ کر بھی نہ پڑھ سکتاہو تو قرآنِ پاک کی کوئی سورت یا چند آیات دونوں خطبے میں پڑھ لے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 395):

"(وكره تركهما) معًا (لمسافر) ولو منفردًا (وكذا تركها) لا تركه لحضور الرفقة (بخلاف مصل) ولو بجماعة (وفي بيته بمصر) أو قرية لها مسجد؛ فلايكره تركهما إذ أذان الحي يكفيه".

"(قوله: في بيته) أي فيما يتعلق بالبلد من الدار والكرم وغيرهما، قهستاني. وفي التفاريق: وإن كان في كرم أو ضيعة يكتفي بأذان القرية أو البلدة إن كان قريبًا وإلا فلا. وحد القرب أن يبلغ الأذان إليه منها اهـ إسماعيل. والظاهر أنه لايشترط سماعه بالفعل، تأمل.
(قوله: لها مسجد) أي فيه أذان وإقامة، وإلا فحكمه كالمسافر صدر الشريعة.
(قوله: إذ أذان الحي يكفيه) لأن أذان المحلة وإقامتها كأذانه وإقامته؛ لأن المؤذن نائب أهل المصر كلهم كما يشير إليه ابن مسعود حين صلى بعلقمة والأسود بغير أذان ولا إقامة، حيث قال: أذان الحي يكفينا، وممن رواه سبط ابن الجوزي، فتح: أي فيكون قد صلى بهما حكمًا، بخلاف المسافر فإنه صلى بدونهما حقيقةً وحكمًا؛ لأن المكان الذي هو فيه لم يؤذن فيه أصلاً لتلك الصلاة، كافي. وظاهره أنه يكفيه أذان الحي وإقامته وإن كانت صلاته فيه آخر الوقت تأمل، وقد علمت تصريح الكنز بندبه للمسافر وللمصلي في بيته في المصر، فالمقصود من كفاية أذان الحي نفي الكراهة المؤثمة. قال في البحر: ومفهومه أنه لو لم يؤذنوا في الحي يكره تركهما للمصلي في بيته، وبه صرح في المجتبى، وأنه لو أذن بعض المسافرين سقط عن الباقين، كما لايخفى". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144108200112

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں