گھر میں فِش ٹینک رکھنا کیسا ہے؟
اگر کوئی شخص اپنے گھر میں فش ایکویریم یعنی مچھلی کا گھر رکھتا ہےتو اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، رکھ سکتا ہے۔
اور اگر کوئی شخص گھر میں چلنے پھرنے کی جگہ پر "فش ٹینک" بنواتا ہے، جس میں نیچے مچھلیاں ہوں اور اوپر شیشہ وغیرہ لگادیا جائے، جس سے مچھلیاں بھی نظر آئیں اور لوگ اوپر چلتے پھرتے بھی ہوں تو اس میں چوں کہ پیسے کا بے جا استعمال ہے؛ اس لیے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
اور اگر کسی گھر میں پانی کے ٹینک میں مچھلیاں ڈال دی جائیں اور اس پانی سے وضو اور غسل بھی کیا جاتا ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں، ٹینک میں مچھلی کے بیٹ کرنے سے پانی ناپاک نہیں ہوتا۔
فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:
"(سوال ۱۴۸) إذا وقع في الحوض الکبیر خرء السمك على کثرة، فیجوز التوضئ به أم لا؟ و هل یتنجس منه الثیاب و الماء أم لا؟
(الجواب) لایتنجس منه الماء و الثوب، و یجوز التوضئ بالماء الذي وقع فیه. فقط."
حاشية رد المحتار على الدر المختار (1/ 326):
"أن الجاري لاينجس ما لم يظهر فيه أثر النجاسة".
اللباب في شرح الكتاب (ص: 11):
"وأما الماء الجاري إذا وقعت فيه نجاسةٌ جاز الوضوء منه، إذا لم ير لها أثرٌ؛ لأنها لاتستقر مع جريان الماء. والغدير العظيم الذي لايتحرك أحد طرفيه بتحريك الطرف الآخر".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144206200797
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن