بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر لوٹ آنے کے بعد اگر طواف کے اعادہ کا ارادہ ہے تو دم دینا لازم نہیں


سوال

نفلی طواف کے دوران اگر ماہواری آجائے تو طواف وہیں ترک کردینا چاہیے، اور پاک ہوجانے کے بعد اس طواف کا اعادہ کرنا چاہیے، پس اگر حیض کی حالت میں طواف مکمل کرلیا جائے تو اس صورت میں ایک دم لازم ہوتا ہے، البتہ اگر دم دینے سے قبل پاکی کی حالت میں طواف کا اعادہ کرلیا جائے تو اس صورت میں دم ساقط ہوجاتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں پاک ہونے کے بعد مذکورہ نفلی طواف کا اعادہ کرلیا جائے، اعادہ نہ کرنے کی صورت میں دم لازم ہوگا،  اس جواب کے تحت یہ سوال ہے کہ اگر مکہ مکرمہ سے اپنے شہر ریاض واپس آگئے اور پھر بعد میں دوبارہ جاکر طواف کرنے کا ارادہ ان شاء  للہ  ہے،تو کیا پھر بھی دم دینا لازم ہوگا کیا؟ پاکی حاصل ہونے تک مکہ مکرمہ ٹھہرنا ضروری ہے یااپنے شہر واپس آگئے اور پھر دوبارہ جانے کا ارادہ  کیا کہ جب بھی توفیق ملی تو طواف کا اعادہ کر لیں گے۔ ایسا کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ حیض کی حالت میں نفل طواف مکمل کرنے کی صورت میں  اصل حکم تو یہی ہے کہ طواف کا اعادہ کر لیا جائے،اگر اعادہ ممکن نہ ہو کہ گھر لوٹ آئی اور دوبارہ جانے کا ارادہ بھی نہیں ہے تو دم دے دیا جائے،لیکن اگر گھر لوٹ آنے کے بعد  مکہ مکرمہ واپس جانے کا ارادہ ہے   اور طواف کا اعادہ کرلیا تو دم  ساقط ہوجائے گا،باقی  پاکی حاصل ہونے تک مکہ مکرمہ میں ٹھہرنا ضروری نہیں ہے،اگر اپنے شہر لوٹ آئے اور دوبارہ جاکر طواف کے اعادہ کا ارادہ ہے تو طواف کے اعادہ سے دم ساقط ہوجائے گا۔

الدرالمختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"والأصح وجوبها في الجنابة وندبها في الحدث، وأن المعتبر الأول والثاني جابر له.

قال في البحر: الواجب أحد شيئين إما الشاة أو الإعادة والإعادة هي الأصل ما دام بمكة ليكون الجابر من جنس المجبور، فهي أفضل من الدم وأما إذا رجع إلى أهله، ففي الحدث اتفقوا على أن بعث الشاة أفضل من الرجوع. وفي الجنابة اختار في الهداية أن الرجوع أفضل لما ذكرنا واختار في المحيط أن البعث أفضل لمنفعة الفقراء."

(کتاب الحج،باب الجنایات فی الحج،ج2،ص551،ط؛سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101479

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں