بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر کے اندر مکتب قائم کرنے کی شرعی حیثیت


سوال

گھر کے اندر مکتب قائم کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا گھر کے اندر مکتب قائم کر سکتے ہیں ؟

جواب

اس پر فتن دور میں جب کہ اسلام اور مسلمانو ں پر چاروں طرف سے باطل کی یلغار ہو،اور مختلف ذرائع سے مسلمانان عالم میں سے دینی رغبت وحمیت کو ختم کرنے  کی پوری کوشش جاری ہو،اس وقت اپنی نسل نو کے دین وایمان کی حفاظت کے لیے ان کی دینی تعلیم کو پوری آب وتاب کے ساتھ جاری رکھنا امت مسلمہ کی بنیادی ضرورت ہے  ،لہذا ان مکاتب ومدارس دینیہ کا قیام مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے ،اور اگر کسی محلہ میں کوئی مدرسہ یا مکتب موجود نہ ہو،جہاں محلہ کے بچوں کی دینی تعلیم وتربیت کا انتظام ہوسکے ،تو ایسی صورت میں تمام محلہ والوں پر  مکتب یا مدرسہ قائم کرنا فرض کفایہ ہوجاتا ہے ۔

ابتدائی عمر کے  بچوں کی دینی  تعلیم وتربیت کے لیے گھروں میں مکتب قائم کرنا زیادہ بہتر ہے ،کیوں کہ ان کے لیے گھریلو ماحول تربیت میں زیادہ کارآمد ثابت ہوتا ہے ،اور زیادہ دور جانے کی کلفت سے بھی محفوظ ہوجائیں گے ،بشر ط یہ کہ گھر کے دیگر افراد کو گھر میں مکتب قائم کرنے سے کوئی ایذاء پہنچنے کا خطرہ نہ ہو،اور گھر کے سربراہ کی طرف سے پوری خوش دلی کے ساتھ اس کی اجازت ہو۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله: واعلم أن تعلم العلم إلخ) أي العلم الموصل إلى الآخرة أو الأعم منه. قال العلامي في فصوله: من فرائض الإسلام تعلمه ما يحتاج إليه العبد في إقامة دينه وإخلاص عمله لله تعالى ومعاشرة عباده. وفرض على كل مكلف ومكلفة بعد تعلمه علم الدين والهداية تعلم علم الوضوء والغسل والصلاة والصوم، وعلم الزكاة لمن له نصاب، والحج لمن وجب عليه والبيوع على التجار ليحترزوا عن الشبهات والمكروهات في سائر المعاملات. وكذا أهل الحرف، وكل من اشتغل بشيء يفرض عليه علمه وحكمه ليمتنع عن الحرام فيه اهـ."

(مقدمة،ج:1،ص:42،ط:سعید)

کفایت المفتی میں ہے :

’’جواب 1:فی زمانہ جب کہ دیگر اقوام روز بروز اسی فکر میں ہیں کہ ترقی کی جائے ،اور نعوذ باللہ من ذلک اسلام کو بیخ وبن سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے ،تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ بھی ایسے اسباب مہیا کریں جس کی وجہ سے دیگر اقوام کو ان کے مقابلہ  میں اول تو جرات مقابلہ ہی نہ ہوسکے ،اور اگر کسی وقت جرأت کرکے آگے بڑھیں تو ان کو پسپائی نصیب ہو،اور وہ اسباب جن کی وجہ سے مخالف اقوام کا وار مسلمانوں پر نہ چل سکے ،ان کی اپنی دینی تعلیم ہے ،جس قدر تعلیم عام ہوگی ،اس قدر مخالفین کو زک اٹھانا پڑے گی ،اس لیے ہر جگہ اور ہر ملک کے باشندوں کا فرض ہے کہ وہ اسلامی تعلیم کی ترقی میں کوشاں رہیں ،جو خدا کے بندے اس ضرورت کو محسوس کرکے مدرسے اور انجمنیں قائم کرتے ہیں ،دیگر مسلمانوں کو ان کی امداد واعانت کرنا واجب ہے ۔۔الخ‘‘

(کتاب العلم ،پہلاباب ،فصل اول :دینی تعلیم اور تبلیغ کی فضیلت،ج:2،ص:29،ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101253

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں