بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے کبوتروں کے انڈوں کو توڑنا


سوال

 ہمارے گھر کی بالکنی میں کبوتر آکر بیٹھ جاتے ہیں جہاں اے سی کے آوٹر بھی لگے ہیں اور کھڑکی بھی کمرے کی کھلتی ہے،کبوتر وہاں آکر بسیرا کرنا چاہتے ہیں، ہم انہیں وہاں بیٹھنے نہیں دیتے تاکہ وہ بسیرا نہ کرلیں، دو سے تین بار ایسا ہوا کہ کبوتر نے انڈے دیئے، ہم نے انہیں توڑ دیا تاکہ وہ وہاں آباد نہ ہوجائیں اور جگہ صاف ستھری رہے،انڈوں کو توڑنا اور کبوتروں کو وہاں سے بھگانا کیا گناہ میں شامل ہوگا ؟جب کہ مقصد تازہ ہوا کے لیے اس جگہ کو صاف ستھرا رکھنا ہے،نہ کہ کبوتروں کو تنگ کرنا۔

جواب

واضح رہے کہ کبوتر وغیرہ جب کسی گھر  میں گھونسلہ بنائے اور اس میں انڈے دےدے  یا اس کے بچے ہوجائيں تو صفائی کی نیت سے اسے ضائع  نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اگر اسی جگہ رکھنا ممکن ہو تو بہت بہتر ہے، ورنہ  قريب میں کسی ایسی جگہ  ميں منتقل کردیئے جائیں، جہاں وہ محفوظ رہیں اور پرندے اپنے انڈوں کے پاس اور اپنے گھونسلے میں آ، جاسکیں، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ اپنے گھر کے آوٹر وغیرہ جہاں کبوتروں کے گھونسلے اور انڈے ہیں وہاں سے کسی اور جگہ منتقل کرے، تاکہ سائلہ کا مقصد بھی پورا ہو اور پرندوں کو بھی کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے۔

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(قوله: و لاينبغي الكتابة على جدرانه) أي خوفًا من أن تسقط و توطأ بحر عن النهاية (قوله: خفاش) كرمان: الوطواط قاموس (قوله: لتنقيته) جواب سؤال: حاصله أنه قال صلى الله عليه وسلم: «أقروا الطير على مكانتها» فإزالة العش مخالفة للأمر فأجاب بأنه للتنقية وهي مطلوبة، فالحديث مخصوص بغير المساجد."

(‌‌كتاب الصلاة‌‌، باب ما يفسد الصلاة، ج:1، ص:663، ط:سعید)

کتاب الجامع لعلوم الإمام أحمد شرح الأحادیث والأثار میں ہے:

"قال: حديث: "أقروا الطير على مكناتها"، قال بعضهم: كانت العرب إذا أراد أحدهم أن يخرج نفر الطير، فإن أخذ -يعني: في طريق أخذ منه- كأنه من الطيرة. وقد قال بعضهم: لا، بل هو "أقروا الطير على مكناتها": أن لا تؤخذ من أوطانها."

(شرح قول النبي صلي الله علیه وسلم "أقروا الطير على مكناتها": ص:373، ط: دار الفلاح للبحث العلمي، مصر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144311100940

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں