بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر کی تقسیم


سوال

ہمارے والد صاحب نے اپنی زندگی میں ہمارے درمیان اپنی جائیداد تقسیم  کی،ہم پانچ بہنیں اور دو بھائی ہیں ، والد صاحب کی 65 لاکھ روپے کی جائیداد تھی ، یعنی ایک  جونا مارکیٹ والا گھر تھا ، جس کی قیمت 30 لاکھ روپے تھی، ایک نیو کراچی والا گھر تھا، جس کی قیمت بھی 30 لاکھ تھی،دوپلاٹ تھے جن کی قیمت 50 ہزار روپے تھی،  والد صاحب نے بیٹوں اور بیٹیوں  سب  کو  آٹھ آٹھ لاکھ روپے دیے، البتہ   والد صاحب نے  جونا مارکیٹ والا گھر میرے (والد کی ایک بیٹی ) میرے ایک معذور بھائی اور اپنے لیے چھوڑا،یعنی آٹھ آٹھ لاکھ روپے کے بدلے ہمیں یہ گھر چھوڑا، اور والد صاحب نے سب کو کہا   کہ میں سب کو حصہ دے چکا ہوں یہ نیو کراچی والا گھر ہم تینوں کا ہے اس میں کسی کا حصہ نہیں ہوگا،اب والد کے انتقال کے  بعد صورت حال یہ ہوا کہ میرے والد کے  باقی  چار بیٹیاں  اور ایک بیٹا بھی اس مکان میں حصہ مانگ رہے ہیں ، کیا اس  گھر میں ہم دونوں (ایک بیٹی اور ایک بیٹے ) کے علاوہ  کسی کاحصہ ہے؟والدہ کا انتقال ہوا ہے۔

جواب

صورت ِ مسئولہ میں سائل کا بیان اگرواقعۃً  درست ہے  کہ والد نے اپنی زندگی میں سائل اور ایک معذور بھائی کے علاوہ دیگر ورثاء کو  آٹھ آٹھ لاکھ روپے  دے کر یہ معاہدہ کیا کہ نیو کراچی والے گھر میں کسی کا حصہ نہیں ہوگا،اور سب ورثاء اسی پر راضی ہوگیے تھے، تو اب اس نیو کراچی والا مذکورہ مکان  شرعًا تین حصوں میں تقسیم ہوگا،ایک حصہ  سائل کا ،ایک حصہ سائل کے  معذور  بھائی کا اور تیسراحصہ  سائل کے مرحوم والد کا ترکہ  ہے  جو  سائل  ، اس کے معذور بھائی  سمیت والد مرحوم کے تمام شرعی ورثاء میں تقسیم ہوگا۔

والد مرحوم کے( ایک تہائی )حصہ کی تقسیم:

والد مرحوم کے ترکہ (نیو کراچی والے مکان کے تیسرے حصے ) کی تقسیم  کا شرعی   طریقہ یہ کہمرحوم کے ترکہ سے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین  کا خرچہ نکالنے کے بعداگر انکے ذمہ کسی کا  قرض ہو تو   اس  کی ادائیگی کے بعد    اگر انہوں نے   کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی ترکہ کے ایک  تہائی مال میں اس کو نافذ کرنے کے بعد باقی کل جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کو 9 حصے کر کے ہربیٹے کودو         دوحصے  اورہر  بیٹی کو  ایک      ایک  حصہ ملے گا۔

صورتِ تقسیم درج ذیل ہے:

میت: مسئلہ :9

بیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
2211111

یعنی ہر بیٹے کو 22.222فیصدجبکہ ہر بیٹی کو 11.111فیصد  ملے گا۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100229

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں