بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر کی طرف طلاق کی اضافت کرنے سے کونسا گھر مراد ہوتا ہے؟


سوال

میری شادی کو دس سال کا عرصہ گزر گیا ہے، میرے چار بچے ہیں، جن میں چھوٹا بچہ دودھ پیتا ایک سال کا ہے، تقریباً دو سال قبل میری بیوی سے لڑائی ہوئی تو میں نے اپنے سالے کو فون پر دو دفعہ کہا "کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی" اور اس کے بعد رجوع بھی کرلیا، ابھی ایک ماہ قبل پھر دورانِ لڑائی میں نے بیوی کو کہا "کہ اگر تو اپنی ماں کے گھر گئی تو طلاق ہوجائے گی" اور اس کے بعد وہ اپنی ماں کے گھر چلی گئی، جب کہ وہ جس گھر میں گئی وہ ماں کا ذاتی گھر نہیں بلکہ کرایہ کا ہے، اب آیا مذکورہ صورت میں تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ شرط و قسم میں جب مکان و گھر کی اضافت کسی شخص کی طرف کی جاتی ہے تو اس سے مراد وہ مکان و گھر ہوتا ہے جس میں اس منسوب  الیہ شخص کی رہائش و سکونت ہو خواہ اس کا ذاتی مکان ہو یا کرایہ وغیرہ کا اور اس سے ذاتی مکان ہرگز مراد نہیں ہوتا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(حلف لا يدخل دار فلان يراد به نسبة السكنى إليه) عرفا ولو تبعا أو بإعارة باعتبار عموم المجاز.

مطلب لا يدخل دار فلان يراد به نسبة السكنى(قوله: ولو تبعا) حتى لو حلف لا يدخل دار أمه أو بنته وهي تسكن مع زوجها حنث بالدخول نهر عن الخانية.قلت: وهو خلاف ما سيذكره آخر الأيمان عن الواقعات، لكن ذكر في التتارخانية: أن فيه اختلاف الرواية ويظهر لي أرجحية ما هنا حيث كان المعتبر نسبة السكنى عرفا، ولا يخفى أن بيت المرأة في العرف ما تسكنه تبعا لزوجها وانظر ما سنذكره آخر الأيمان (قوله: أو بإعارة) أي لا فرق بين كون السكنى بالملك أو بالإجارة أو العارية إلا إذا استعارها ليتخذ فيها وليمة فيدخلها الحالف فإنه لا يحنث كما في العمدة والوجه فيه ظاهر نهر أي لأنها ليست مسكنا له (قوله: باعتبار عموم المجاز إلخ) مرتبط بقوله يراد، يعني أن الأصل في دار زيد أن يراد بها نسبة الملك، وقد أريد بها ما يشمل العارية ونحوها وفيه جمع بين الحقيقة والمجاز وهو لا يجوز عندنا. فأجاب بأنه من عموم المجاز بأن يراد به معنى عام يكون المعنى الحقيقي فردا من أفراده وهو نسبة السكنى: أي ما يسكنها زيد بملك أو عارية."

(ج:3، ص:760، کتاب الایمان، باب الیمین فی الدخول والخروج ۔۔۔، ط:سعید)

مذکورہ تمہید کی رو سے صورتِ مسئولہ  میں  سائل نے اپنی بیوی کو  دو طلاق دینے کے بعد  جب تیسری طلاق بھی معلق کرکے دے دی، اور  بیوی سے یہ کہا کہ "اگر تو اپنی ماں کے گھر گئی تو طلاق ہوجائے گی"  اور اس کے بعد بیوی اپنی ماں کے گھر چلی گئی اگرچہ وہ گھر اس کا ذاتی نہیں تھا، تو اس سے سائل کی بیوی پر تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی اور وہ اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، نکاح ختم ہوچکا ہے، اب رجوع جائز نہیں اور دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا۔

 فتاوی شامی میں ہے:

"و البدعي ثلاث متفرقة ... قوله: ثلاث متفرقة و كذا بكلمة واحدۃ بالأولی ... إلی قوله: و ذهب جمھور الصحابة و التابعین و من بعدهم من أئمة المسلمین إلی أنه یقع ثلاث."

(ج: 3 ،ص: 232/233 ،کتاب الطلاق ،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و إن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."

(ج: 1 ، ص: 472،فصل فیما تحل بہ المطلقۃ  و ما یتصل بہ، ط:ماجدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100268

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں