بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر کی تعمیر سے قبل اذان دینا


سوال

گھر بناتے وقت پہلے اذان دینا کیسا ہے ؟ اور اذان کیسے دیں؟

جواب

گھر کی تعمیر سے پہلے اذان کہنا ثابت نہیں، لہذا گھر کی تعمیر سے پہلے اذان دینے کو لازم نہ سمجھیں، البتہ  اگر کسی نے تعمیرات سے قبل اذان کہ دی تو وہ گناہ گار نہ ہوگا،  تاہم ایسے موقع پر اذان کہنے کو لازم  یا مسنون سمجھنا درست نہیں، گھر میں خیر و برکت کے لیے حسبِ توفیق قرآن مجید میں سے کچھ اس زمین پر پڑھ لیا جائے، یا سورہ بقرہ کی تلاوت کرلی جائے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:

"لا تجعلوا بيوتكم مقابر. إن الشيطان ينفر من البيت الذي تقرأ فيه سورة البقرة."

( كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب استحباب صلاة النافلة في بيته وجوازها في المسجد، ١ / ٥٣٩، رقم الحديث: ٧٨٠، ط: دار إحياء التراث العربي )

ترجمہ:" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ اس لئے کہ شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورۂ بقرہ پڑھی جاتی ہے۔"

رد المحتار علی الدر المختارمیں ہے:

" (قوله: لا يسن لغيرها) أي من الصلوات وإلا فيندب للمولود. وفي حاشية البحر الرملي: رأيت في كتب الشافعية أنه قد يسن الأذان لغير الصلاة، كما في أذان المولود، والمهموم، والمصروع، والغضبان، ومن ساء خلقه من إنسان أو بهيمة، وعند مزدحم الجيش، وعند الحريق، قيل وعند إنزال الميت القبر قياسا على أول خروجه للدنيا، لكن رده ابن حجر في شرح العباب، وعند تغول الغيلان: أي عند تمرد الجن لخبر صحيح فيه. أقول: ولا بعد فيه عندنا. اهـ. أي لأن ما صح فيه الخبر بلا معارض فهو مذهب للمجتهد وإن لم ينص عليه، لما قدمناه في الخطبة عن الحافظ ابن عبد البر والعارف الشعراني عن كل من الأئمة الأربعة أنه قال: إذا صح الحديث فهو مذهبي، على أنه في فضائل الأعمال يجوز العمل بالحديث الضعيف كما مر أول كتاب الطهارة، هذا، وزاد ابن حجر في التحفة الأذان والإقامة خلف المسافر. قال المدني: أقول وزاد في شرعة الإسلام لمن ضل الطريق في أرض قفر: أي خالية من الناس. وقال المنلا علي في شرح المشكاة قالوا: يسن للمهموم أن يأمر غيره أن يؤذن في أذانه فإنه يزيل الهم، كذا عن علي - رضي الله عنه - ونقل الأحاديث الواردة في ذلك فراجعه. اهـ."

( كتاب الصلاة، باب الأذان، ١ / ٣٨٥، ط: دار الفكر )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144404100616

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں