1- کتوں کو گھر کی رکھوالی کے لیے رکھنا کیساہے؟
2- بچوں کا اس کے ساتھ کھیلنا کیسا ہے؟
1۔ گھر کی رکھوالی کے طور پر کتا پالنے کی اجازت ہے، البتہ شوقیہ پالنا جائز نہیں، نیز شوقیہ پالنا اللہ کی رحمت سے دوری اور اعمال کے حبط و برباد ہونے کا باعث ہے۔
سنن أبي داود میں ہے:
"2844 - حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنِ اتَّخَذَ كَلْبًا إِلَّا كَلْبَ مَاشِيَةٍ أَوْ صَيْدٍ أَوْ زَرْعٍ انْتَقَصَ مِنْ أَجْرِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ»".
(كتاب الصيد، بَابٌ فِي اتِّخَاذِ الْكَلْبِ لِلصَّيْدِ وَغَيْرِهِ، ٣ / ١٠٨، ط:المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وَفِي الْأَجْنَاسِ: لَايَنْبَغِي أَنْ يَتَّخِذَ كَلْبًا إلَّا أَنْ يَخَافَ مِنْ اللُّصُوصِ أَوْ غَيْرِهِمْ وَكَذَا الْأَسَدُ وَالْفَهْدُ وَالضَّبُعُ وَجَمِيعُ السِّبَاعِ وَهَذَا قِيَاسُ قَوْلِ أَبِي يُوسُفَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ.
وَيَجِبُ أَنْ يَعْلَمَ بِأَنَّ اقْتِنَاءَ الْكَلْبِ لِأَجْلِ الْحَرَسِ جَائِزٌ شَرْعًا وَكَذَلِكَ اقْتِنَاؤُهُ لِلِاصْطِيَادِ مُبَاحٌ وَكَذَلِكَ اقْتِنَاؤُهُ لِحِفْظِ الزَّرْعِ وَالْمَاشِيَةِ جَائِزٌ كَذَا فِي الذَّخِيرَةِ."
(كتاب الكراهية، الْبَابُ الْحَادِي وَالْعِشْرُونَ فِيمَا يَسَعُ مِنْ جِرَاحَاتِ بَنِي آدَمَ وَالْحَيَوَانَاتِ وَقَتْلِ الْحَيَوَانَاتِ وَمَا لَا يَسَعُ مِنْ ذَلِكَ، ٥ / ٣٦١، ط: دار الفكر)
2۔ کتے کا لعاب چوں کہ نجس ہے، اور شوقیہ طور پر کتا رکھنے کی اجازت نہیں ہے، رحمت کے فرشتوں سے دوری اور اعمال ضائع ہونے کا سبب ہے؛ لہذا کتوں کے ساتھ کھیلنے، لپٹانے پیار کرنے میں نجاست (لعاب) لگنے نیز بچوں کے دل میں ان کا شوق و محبت دل میں پیدا ہونے کا قوی امکان ہے، جس کی وجہ سے کتوں کے ساتھ کھیلنے سے اجتناب لازم ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"الْكَلْبُ إذَا أَخَذَ عُضْوَ إنْسَانٍ أَوْ ثَوْبَهُ لَايَتَنَجَّسُ مَا لَمْ يَظْهَرْ فِيهِ أَثَرُ الْبَلَلِ رَاضِيًا كَانَ أَوْ غَضْبَانَ، كَذَا فِي مُنْيَةِ الْمُصَلِّي. قَالَ فِي الصَّيْرَفِيَّةِ: هُوَ الْمُخْتَارُ، كَذَا فِي شَرْحِهَا لِإِبْرَاهِيمَ الْحَلَبِيِّ."
(كِتَابُ الطَّهَارَةِ، الْبَابُ السَّابِعُ فِي النَّجَاسَةِ وَأَحْكَامِهَا، الْفَصْلُ الثَّالِثُ فِي الِاسْتِنْجَاءِ، ١ / ٤٨، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144112200926
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن