بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ربیع الثانی 1446ھ 11 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر کی مشترکہ قربانی میں کسی کا رقم زیادہ دینا اور کسی کا کم/قربانی کے ساتھ عقیقہ


سوال

ہمارے گھر میں تقریبا دو یا تین سال سے ایسا ہو رہا ہے کہ  ہمارے والد صاحب اور دو بڑے بھائی مل کر قربانی کے لیے ایک گائے لے کر  آتے ہیں، جس میں تقریبا(۴۰) فیصد پیسہ ایک بھائی کا ہوتا ہے اور (۶۰) فیصد والد صاحب اور ایک بھائی کا ہوتا ہے، جس میں تینوں شرکاء کا ایک ایک نام آتا ہے اور باقی نام والدصاحب اپنے والد کانام ڈالتےہیں اور اس میں عقیقہ وغیرہ بھی ہوتا ہے، آیا یہ صورت قربانی کی ٹھیک ہے ؟ 

خلاصہ یہ ہےکہ اس میں شرکاء پر پیسے متعین نہیں ہوتے اور یہ بھی متعین نہیں ہوتا کہ ان کا کتنا حصہ ہے؟ اور ان کا کتنا، پھر گوشت کے تین حصے ہوتے ہیں،  ایک حصہ محلہ میں اور ایک حصہ رشتہ داروں  میں اور ایک حصہ گھر میں۔

جواب

شرعی اعتبار سے ہراس شخص پرجس پر قربانی لازم ہے ،اپنے حصہ کی رقم ادا کرنا ضروری ہے ،اگر ایک حصہ ہے تو ایک حصہ کی رقم اور اگر ایک سے زائد حصے ہیں تو اپنے حصوں کے بقدر رقم ادا کرنا ضروری ہے،پھر بعد میں وہ اسی تناسب سے(اپنے حصہ/حصوں کے بقدر) گوشت کا حق دار ہوتاہے،لیکن عموماوالد کے ساتھ مشترکہ گھر /کاروبار وغیرہ میں  باہمی رضامندی سے سب(والد اور بیٹے) پیسے جمع کرکے ایک بڑا جانور لے کر آتے ہیں،اور گھر کے مختلف لوگوں  کے نام سے علیحدہ علیحدہ حصے متعین کرکے قربانی کردی جاتی ہے،جس میں کسی کی طرف سے رقم زیادہ ہوتی ہے(کاروبار/مالی حالات بہتر ہونے کی وجہ سے)   اور کسی کی طرف سےرقم کم ادا کی جاتی ہے، جب کہ کوئی رقم دینے سےبالکل مستثنیٰ بھی ہوتا ہے،لیکن قربانی سب کی جاتی ہے اور گوشت بھی باہمی رضامندی سے تقسیم اور استعمال کیاجاتا ہے،لہذا اس میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے۔

باقی چھوٹے جانور میں یا  بڑے جانور کے صرف ایک  حصے میں شرعاً صرف  ایک  ہی نیت کی جاسکتی ہے، خواہ قربانی کی نیت  ہو یا  عقیقہ کی، ایک حصے میں دو نیتیں درست نہیں ۔

البتہ قربانی کے بڑے  جانور (اونٹ، گائے، بھینس وغیرہ) کے سات حصوں میں قربانی کے حصہ کے علاوہ عقیقہ کی نیت سے مستقل حصہ شامل کیا جاسکتا ہے، جو حصہ عقیقہ کی نیت کا ہوگا وہ عقیقہ شمار ہوگا، باقی حصے قربانی کے شمار ہوں گے۔ 

فتاوی ہندیہ میں  ہے:

"ولو ضحى ببدنة عن نفسه وعرسه وأولاده ليس هذا في ظاهر الرواية وقال الحسن بن زياد في كتاب الأضحية: إن كان أولاده صغارا جاز عنه وعنهم جميعا في قول أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى -، وإن كانوا كبارا إن فعل بأمرهم جاز عن الكل في قول أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى...."

(کتاب الاضحیة،الباب السابع في التضحية عن الغير،ج5،ص302،ط؛دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

"لا يشارك المضحي فيما يحتمل الشركة من لا يريد القربة رأسا، فإن شارك لم يجز عن الأضحية، وكذا هذا في سائر القرب إذا شارك المتقرب من لا يريد القربة لم تجز عن القربة، ولو أرادوا القربة - الأضحية أو غيرها من القرب - أجزأهم سواء كانت القربة واجبة أو تطوعا أو وجب على البعض دون البعض، وسواء اتفقت جهات القربة أو اختلفت بأن أراد بعضهم الأضحية وبعضهم جزاء الصيد وبعضهم هدي الإحصار وبعضهم كفارة عن شيء أصابه في إحرامه وبعضهم هدي التطوع وبعضهم دم المتعة أو القران وهذا قول أصحابنا الثلاثة رحمهم الله تعالى، وكذلك إن أراد بعضهم العقيقة عن ولد ولد له من قبل، كذا ذكر محمد - رحمه الله تعالى - في نوادر الضحايا...."

(کتاب الاضحیة،الباب الثامن فيما يتعلق بالشركة في الضحايا،ج5،ص304،ط؛دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101722

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں