بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر کی چھت پر تراویح کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کرنے کا حکم


سوال

میں تراویح اپنے گھر کی چھت پر پڑھا تاہوں اور عشاء کی نماز مسجد میں پڑھتا ہوں اور جب عشاء کی نماز ہوجاتی ہے تو تقریباً 40۔ 50 لوگ مسجد سے نکل کر میرے گھر کی چھت پر جاتے ہیں، پھر بہت سارے لوگ دیکھتے ہیں، انتشار کا خطرہ ہوتا ہے۔ آیا کہ ہم عشاء کی جماعت چھت پر کراسکتے ہیں اور ہمارے ساتھ بزرگ بھی ہوتے ہیں اور عورتیں بھی ہوتیں ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ مسجد کے قریب ہوتے ہوئے بلا کسی عذر  فرض نماز کی جماعت کا دوسری جگہ اہتمام کرنا مکروہ ہے، اور مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے سے  مسجد کی فضیلت اور ثواب سے محرومی ہوگی، نیز  مسجد میں آنے کے بجائے بغیر کسی شرعی عذر کے مردوں کے  گھروں میں نماز ادا کرنے پر احادیثِ مبارکہ میں سخت وعیدیں ذکر کی گئی ہیں ، چنانچہ مشکاۃ شریف کی روایت میں ہے :

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "والذي نفسي بيده لقد هممت أن آمر بحطب فيحطب، ثم آمر بالصلاة فيؤذن لها، ثم آمر رجلاً فيؤم الناس ثم أخالف إلى رجال. وفي رواية: لايشهدون الصلاة فأحرق عليهم بيوتهم والذي نفسي بيده لو يعلم أحدهم أنه يجد عرقًا سمينًا أو مرماتين حسنتين لشهد العشاء". رواه البخاري ولمسلم نحوه".

ترجمہ:" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے!  میں نے ارادہ کیا کہ (کسی خادم کو) لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں اور جب لکڑیاں جمع ہو جائیں تو (عشاء) کی نماز کے لیے اذان کہنے کا حکم دوں اور جب اذان ہو جائے تو لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے کسی آدمی کو مامور کروں اور پھر میں ان لوگوں کی طرف جاؤں (جو بغیر کسی عذر کے نماز کے لیے جماعت میں نہیں آتے) اور ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا:) ان لوگوں کی طرف جاؤں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھروں کو جلا دوں اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے (جو لوگ نماز کے لیے جماعت میں شریک نہیں ہوتے ان میں سے) اگر کسی کو یہ معلوم ہو جائے کہ (مسجد میں) گوشت کی فربہ ہڈی، بلکہ گائے یا بکری کے دو اچھے کھر مل جائیں گے تو عشاء کی نماز میں حاضر ہوں۔"

مشکاۃ شریف کی دوسری روایت میں ہے :

"وَعنِ ِابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْه وَسَلَّمَ: مَنْ سَمِعَ الْمُنَادِیَ فَلَمْ یَمْنَعْه مِن اتِّبَاعِه عُذْرٌ، قَالُوْا: وَمَا الْعُذْرُ؟ قَالَ: خَوْفٌ أَوْ مَرَضَ لَمْ تُقْبَلْ مِنْه الصَّلاة الَّتِي صَلَّی". (رواه أبوداؤد والدارقطني)".

ترجمہ :" حضرت عبداللہ بن عباس راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جو آدمی اذان کہنے والے (یعنی مؤذن) کی اذان سنے اور مؤذن کی تابع داری (یعنی مسجد پہنچ کر جماعت میں شریک ہونے) سے اسے کوئی عذر نہ روکے، لوگوں نے پوچھا کہ عذر کیا ہے؟ فرمایا کہ : (دشمن سے) ڈرنا یا بیماری، تو اس کی نماز جو بغیر جماعت (اگرچہ مسجد ہی میں پڑھے) قبول نہیں کی جاتی "۔

یہ روایات اور اس طرح کی دیگر روایات سے معلوم ہوتاہے کہ مردوں کے لیے بلاشرعی عذر کے مسجد کو چھوڑ کر گھر میں نماز اداکرنا درست نہیں ، ایسے افراد احادیث میں مذکور شدید وعید میں شامل ہیں۔لہذا مردوں کے لیے حالتِ صحت وتندرستی  اور عام حالات میں مساجد میں باجماعت نماز ادا کرنا حکماً واجب کے درجہ میں ہے ۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں  گھر میں  تراویح   پڑھنے کی ترتیب ہے تو بھی مسجد میں باجماعت نماز پڑھ  کر گھر میں تراویح ادا کریں،اور اسی طرح آپ کے ساتھ بزرگ اور عورتوں کا ہونا کو ئی شرعی عذر نہیں  جس کی وجہ سے گھر کی چھت پر  عشاء کی نماز ادا کی جا ئے ۔

چنانچہ اعلاء السنن میں ہے :

"قلت دلالته علی الجزء الأول ظاهرة حیث بولغ في تهدید من تخلّف عنها وحکم علیه بالنفاق، ومثل هذا التهدید لایکون إلا في ترك الواجب، ولایخفی أن وجوب الجماعة لو کان مجردًا عن حضور المسجد لما هم رسول اﷲ ﷺ بإضرام البیوت علی المتخلفین لاحتمال أنهم صلوها بالجماعة في بیوتهم؛ فثبت أن إتیان المسجد أیضًا واجب کوجوب الجماعة، فمن صلاها بجماعة في بیته أتی بواجب وترك واجبًا آخر ... و أما مایدل علی وجوبها في المسجد فإنهم اتفقوا علی أن إجابة الأذان واجبة لما في عدم إجابتها من الوعید ...".

(باب وجوب إتیان الجماعة في المسجد عند عدم العلة 4 /186 ط:  إدارة القرآن کراچی)

وفیه أیضاً:

"قلت: وهذا صریح في أن وجوب الجماعة إنما یتأدی بجماعة المسجد لا بجماعة البیوت ونحوها، فما ذکره صاحب القنیة اختلف العلماء في إقامتها في البیت، والأصح أنها کإقامتها في المسجد إلا في الفضیلة، وهو ظاهر مذهب الشافعي اهـ. کذا في حاشیة البحر لابن عابدین لایصح مالم ینقل نقلًا صریحًا عن أصحاب المذهب ویرده ماذکرنا من الأحادیث في المتن، فالصحیح أن الجماعة واجبة مع وجوب إتیانها في المسجد، ومن أقامها في البیت وهو یسمع النداء فقد أساء وأثم".

(باب وجوب إتیان الجماعة في المسجد عند عدم العلة 4 /188 ط:  إدارة القرآن کراچی)

البحر الرائق ـ :

"(قوله: وذكر هو وغيره إلخ ) قال في النهر: وفي المفيد: الجماعة واجبة، وسنة لوجوبها بالسنة، وهذا معنى قول بعضهم: تسميتها واجبة، وسنة مؤكدة سواء، إلا أن هذا يقتضي الاتفاق على أن تركها بلا عذر يوجب إثمًا مع أنه قول العراقيين، والخراسانيون على أنه يأثم إذا اعتاد الترك، كما في القنية ا هـ . وفي شرح المنية للحلبي: والأحكام تدل على الوجوب من أن تاركها من غير عذر يعزر وترد شهادته ويأثم الجيران بالسكوت عنه، وهذه كلها أحكام الواجب، وقد يوفق بأن ترتيب الوعيد في الحديث، وهذه الأحكام مما يستدل به على الوجوب مقيد بالمداومة على الترك، كما هو ظاهر قوله عليه السلام: {لايشهدون الصلاة} وفي الحديث الآخر: {يصلون في بيوتهم} كما يعطيه ظاهر إسناد المضارع، نحو بنو فلان يأكلون البر أي عادتهم فيكون الواجب الحضور أحيانًا، والسنة المؤكدة التي تقرب منه المواظبة عليها وحينئذ فلا منافاة بين ما تقدم وبين قوله عليه السلام: {صلاة الرجل في الجماعة تفضل على صلاته في بيته أو سوقه سبعًا وعشرين ضعفًا} ا هـ . (قوله: إذا تركها استخفافًا) أي تهاونًا وتكاسلًا، وليس المراد حقيقة الاستخفاف الذي هو الاحتقار فإنه كفر (قوله: حتى لو صلى في بيته بزوجته إلخ ) سيأتي خلافه عن الحلواني من أنه لاينال الثواب ويكون بدعةً ومكروهًا".

(کتاب الصلاۃ ، باب الإمامت 1 /365 /366 ط: دار الكتاب الإسلامي)

    فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100144

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں