بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر خریدنے کے لیے کسی کو زکوۃ کی رقم دینا


سوال

ایک خاتون گھر میں کام کرنے والی ہے وہ اپنا گھر لینا چاہ رہی ہے جہاں وہ رہتی ہے،  وہ اس کی بیٹی اور داماد کا ہے تو کیا اس کو زکاة دی جاسکتی ہے اپنا گھر لینے کے لیے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ خاتون غیر سیدہ اگر  واقعۃً زکوۃ  کی مستحق ہو یعنی  اس کی ملکیت  میں ضرورت سے زائد  ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابر نقد رقم  اور ضرورت سے زائد سامان موجود نہیں ہے، اور گھر خریدنے کے لیے  پیسے نہیں تو بلا معاوضہ  اس کو زکوۃ کی رقم دینا جائز ہے۔گھر خریدنے کے لیے زکوۃ کی رقم دینے کی ایک صورت یہ ہے کہ مذکورہ خاتون کے پاس جو رقم ہے وہ بیعانہ کے طور پر دیکر گھر کا سودا کرلے، اس کے بعد جتنی رقم کم پڑے تو مقروض ہونے کے اعتبارسے اُسے اُس قدر زکوۃ کی رقم دینا بھی جائز ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله  تعالى."

(كتاب ‌الزكاة، الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها، ج: 1، ص: 170، ط: رشيدية)

الدر المختار میں ہے:

"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة."

(‌‌شامي، كتاب الزكاة، باب المصرف، ج: 2، ص: 344، ط: سعید)

وفيه أيضاً

"وشرعا (تمليك)...(جزء مال) خرج المنفعة، فلو أسكن فقيرا داره سنة ناويا لا يجزيه (عينه الشارع)...(من مسلم فقير) ولو معتوها (غير هاشمي ولا مولاه) أي معتقه ...مع قطع المنفعة عن المملك من كل وجه)فلا يدفع لأصله وفرعه  (لله تعالى)."

(شامي، ‌‌كتاب الزكاة، ج: 2، ص: 258،256، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها الغارم) وهو من لزمه دين ولا يملك نصابا فاضلا عن دينه أو كان له مال على الناس لا يمكنه أخذه كذا في التبيين والدفع إلى من عليه الدين أولى من الدفع إلى الفقير."

(كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ج: 1، ص: 188، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ومديون لا يملك نصابا فاضلا عن دينه) وفي الظهيرية: الدفع للمديون أولى منه للفقير.

وفي الرد: (قوله: لا يملك نصابا) قيد به؛ لأن الفقر شرط في الأصناف كلها... ونقل ط عن الحموي أنه يشترط أن لا يكون هاشميا. (قوله: أولى منه للفقير) أي أولى من الدفع للفقير الغير المديون لزيادة احتياجه."

(رد المحتار، ‌‌كتاب الزكاة، باب المصرف، ج: 2، ص: 343، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409101099

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں