بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر خرید کر رہنے کی شرط پر رقم ہبہ کرنا


سوال

میری بیوی کی ایک بڑی بہن ہے، جنہوں نے میری بیٹی کو کچھ ہبہ دیئے اور کہا کہ ان پیسوں سے مکان خرید لو، اس مکان کے آدھے حصہ میں تم لوگ رہنا (میری بیوی اور بچے) اور آدھے حصہ میں جب تک میں زندہ ہوں رہوں گی۔ اب میری بیوی کا انتقال ہو چکا ہے، جبکہ ان کی بڑی بہن (میری سالی) زندہ ہے، لیکن میرے بچے (7 بچے) وہ آپس میں لڑتے ہیں کہ مکان مذکورہ میں ہمارا بھی برابر حصہ ہے۔

واضح رہے کہ میری سالی کی کوئی اولاد نہیں ہے، شوہر حیات ہے، ان کی رضامندی سے یہ سب معاملہ ہوا تھا۔

وضاحت:میری سالی نے میری بیٹی کو رقم گفٹ کی تھی اور میری بیٹی نے رقم وصول کر کے گھر خرید لیا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل کی سالی نے سائل کی بیٹی کو رقم مکمل قبضہ کے ساتھ گفٹ کی تھی تو یہ تمام رقم سائل کی بیٹی کی تنہا ملکیت میں آگئی تھی اور اس پوری رقم کا ہبہ سائل کی بیٹی کے حق میں مکمل اور درست ہو گیا تھا  اور رقم دینے کے بعد سائل کی سالی کا یہ کہنا کہ" اس رقم سے گھر خرید لو، اس کے آدھے حصہ میں میں رہوں گی" تو یہ شرط شرعاً شرط فاسد تھی، اس ليے شرعاً یہ غیر معتبر قرار پائی ،تاہم بعد میں سائل کی بیٹی کااپنی خالہ کو  اس گھر کے دوسرے حصہ میں رہنے پر رضامند ہونا  شرعاً اس  کا تبرّع اور احسان سمجھا جائے گا،  لہٰذا مذکورہ گھر سائل کی بیٹی (جس کو سالی نے رقم گفٹ کی تھی)کی تنہا ملکیت ہے، اس میں سائل کے دوسرے بچوں کا شرعاً کوئی حق و حصہ نہیں ہے۔

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(وحكمها ثبوت الملك للموهوب له..(و) حكمها (أنها لا تبطل بالشروط الفاسدة) فهبة عبد على أن يعتقه تصح ويبطل الشرط."

(کتاب الهبة : ص 689، ج )

(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".

(كتاب الهبة، ج:5، ص:690، ط:سعيد)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"وإن وهب لرجل أمة على أن يردها عليه، أو على أن يعتقها، أو على أن يستولدها، أو وهب له دارا، أو تصدق عليه بدار على أن يرد عليه شيئا منها، أو يعوضه شيئا منها، فالهبة جائزة، والشرط باطل، كذا في الكافي، والأصل في هذا:  " أن كل عقد من شرطه القبض فإن الشرط لا يفسده كالهبة والرهن".

ـ(الباب الثامن في حکم الشرط في الهبة : ج 4، ص 396، ط: حقانیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144308101294

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں