بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نقد گھر خرید کر نفع کے ساتھ قسطوں پر فروخت کرنا


سوال

”آسان گھر فنانس“ کمپنی نے اس عزم کے ساتھ کہ مہنگائی کے اس پرفتن دور میں لوگوں کو گھر کی خریداری میں آسانی  پیدا کرنے کے لیے ایک کمپنی بنانے کا ارادہ کیا،  جس میں صرف اور صرف مکمل تیار گھر کی خریداری کے لیے ہاؤس فنانسنگ کی سہولت فراہم کی  جائیں گی،  جس کی تفصیلات درج ذیل ہے:

1: کسٹمر ،  کمپنی سے ویب سائٹ یا کسی ریفرنس سے رابطہ کرے گا اور مبیع (مکمل تیار گھر)  کی نشاندہی کرے گا،  نیز کمپنی کسٹمر کی مالی حیثیت ، ماہانہ آمدنی کی جانچ پڑتال کرے گی۔

2: کسٹمر،  کمپنی سے ”ماسٹر مرابحہ ایگریمنٹ “ کرے گا ، جس میں کسٹمر گھر کی خریداری کا وعدہ کرے گا، نیز کمپنی ، کسٹمر سے 15 فیصد بطور سكيورٹی ڈپازٹ  لے گی جو کمپنی کے پاس بطور امانت ہوگا۔

3: کمپنی کسٹمر کی طرف سے متعین مبیع (مکمل تیار گھر)  کی قانونی کاروائی کرے گی جس میں ہوم ویلیوشن، اور اس سے متعلق امور شامل ہوں گے۔

4 : کمپنی بذاتِ خود پوری 100 فیصد قیمت ادا کرکے متعین مبیع مکمل تیار گھر کو خرید لے گی۔ اور اس کو اپنے قبضہ میں لے لے گی۔

(مکان کمپنی کے نام ٹرانسفر ہوگا،  کمپنی ایک مکمل ٹیم ہے  جو  خود جاکر یہ سارے معاملات دیکھتی ہے، اور پانچ سے چھ ان کے وزٹ ہوتے ہیں، یعنی مکان مکمل کمپنی  کی کسٹڈی میں آجاتا ہے۔)

5: اس کے بعد   کمپنی اور کسٹمر کے درمیان   ایجاب و قبول کا عمل ہوگا، جس کی   تفصیلات درج ذیل ہیں:

پہلے مرحلہ میں مبیع (مکمل تیار گھر) کی ویلیوشن،  قانونی کاروائی ، مبیع (مکمل تیار گھر) کی  خریداری اور کمپنی  کے پاس قبضہ میں آنے کے بعد کمپنی (بائع) ، کسٹمر (مشتری) کے ساتھ مرابحہ کے  عین مطابق مبيع(مکمل تیار گھر)  پر کسٹمر کو ایجاب پیش کرے گی۔  جس میں مبیع  کی قیمت، اس پر آنے والے اخراجات اور  منافع ظاہر کیا جائے گا ، نیز ادائیگی کی مکمل مدت اور ماہانہ قسط  بھی درج ہوگی۔ اس کے بعد کسٹمر اس کو قبول کرلے گا اور کمپنی اس کو  یہ  مکان  پانچ سال کی  مقررہ قسطوں کے ساتھ دے دے گی۔

 نیز عقد مرابحہ میں مبیع کی قیمت اور منافع متعین  ہونے کے بعد وقت سے پہلے ادائیگی کی وجہ سے کمی کرنا یا ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے کسی بھی قسم کا اضافہ نہیں کیا جائے گا۔

مثال:  کسٹمر نے کمپنی کو گھر کی خریداری کے لیے بیع مرابحہ کی درخواست دی ، کسٹمر کے متعین گھر کی  قیمت 900000 لاکھ ہے، کمپنی نے خریداری کرتے وقت 30000 ویلویشن اور 70000 قانونی کاروانی میں خرچ کیے، کل 1000000 میں گھر کی خریداری ہوئی،  کمپنی کسٹمر کو بیع مرابحہ کے مطابق گھر کی 1000000 اصل قیمت اور 200000 کمپنی کا منافع ذکر کرکے 1200000 میں پانچ سال کی قسط پر دے گی۔

پانچ سال (ساٹھ ماہ) میں ہر ماہ بیس ہزار (20000) کی قسط مرابحہ کے وقت متعین ہوگی ، بعد عقد کسی قسم کی  کمی، زیادتی نہیں ہوگی۔

دوسرے مرحلہ میں کمپنی کسٹمر کو باقاعدہ گھر کا قبضہ دے گی۔

تیسرے مرحلہ میں کمپنی کسٹمر سے پراپرٹی  ٹرانسفر کا معاہدہ کرے گی،  جس میں یہ بات واضح ہوگی پانچ سال (60 ماه) کی ادائیگی کے بعد کمپنی کسٹمر کے نام پر پراپرٹی ٹرانسفر کرے گی، مکمل ادائیگی تک ٹائٹل آف پراپرٹی کمپنی کے نام پر ہی رہے گی۔

6:  کسٹمر کو اس بات سے آگاہ کیا جائے گا کہ  قسط کی ادائیگی  میں تین ماہ تک  تاخیر کی کوئی معقول وجہ ہو تو کمپنی اس کی رعایت دے گی اور اگر کوئی معقول وجہ نہ ہو تو کمپنی اس بات کی مجاز ہوگی کہ سکیورٹی ڈپازٹ میں سے  قسطیں  لے لے، نیز کسٹمر مسلسل چھ  ماه قسط ادا نہ کرے تو کمپنی کو اس بات کا اختیار ہوگا کہ مبیع کو بیچ کر اپنا ثمن لے اور بقیہ کسٹمر کو واپس کرے ۔

7: کمپنی کے گھر خریدنے کے بعد اگر بالفرض  کسٹمر لینے سے انکار کردے ، تب بھی کسٹمر کے سیکورٹی ڈپازٹ سے کسی قسم کی کٹوتی  نہیں کی جائے گی، کچھ وقت بعد قانونی تقاضے پورے کرکے سیکورٹی ڈپازٹ کی مکمل رقم کسٹمر کو واپس کردی جائے گی۔

8: کمپنی  کے اس بزنس ماڈل کی بنیاد اس نظریہ کے ساتھ رکھی گئی ہے کہ کسٹمر کو کسی بھی قسم کا قرض فراہم نہیں کیا جائے گا یا قرض  دینے کے لیے  گھر خرید کر کسٹمر کو نہیں دیا جائے گا کہ جس کو کسٹمر  فروخت کرکے  حاصل ہونے والی رقم سے اپنی ضرورت پوری کرسکے، بلکہ بنیادی طور پر گھر ہی کی خرید وفروخت مقصود ہوگی، نیز اس بات کو اس طرح یقینی بنایا گیا ہے کہ کسٹمر کو  پانچ سال کی مدت پر  گھر کی سہولت دی جائے گی، جس کی مکمل ادائیگی کے بعد کسٹمر کو ٹائٹل آف پراپرٹی ٹرانسفر کی جائے گی؛ کیوں کہ کمپنی کا طریقہ کار ایسا ہے کہ جس میں  مکمل ادائیگی کے بغیر کسٹمر کا ٹائٹل آف پراپرٹی ٹرانسفر نہیں ہوگی۔

کیا مذکورہ طریقہ کے مطابق کام کرنا شرعاً جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی چیز    کو اس کی اصل   لاگت (قیمت خرید  يا اس كے ساتھ خریداری پر آنے والے معروف اخراجات)  ، اور اس پر  متعین نفع بیان کرکے فروخت کرنے کو  شرعا  ” بیع ِ مرابحہ “ کہتے ہیں، اور  ”مرابحہ “ میں چیز نقد فروخت کرنے کے بجائے اگر ادھار فروخت کی جائے اور  خریدار سے  اس  کی قیمت  ایک متعین مدت کے بعد یا قسط وار وصول کی جائے   اور ادھار فروخت کرنے میں  نقد کے مقابلے میں زیادہ قیمت وصول کی جائے  اور اس   معاملہ میں کسی  قسم کی شرطِ فاسد نہ ہو اور مقصود بھی اس چیز کی خرید وفروخت ہو، قرض کی فراہمی یا وصولی مقصود نہ ہو    تو   یہ جائز ہے؛  اس لیے کہ  ہر شخص کو اپنی مملوکہ  چیز    اصل قیمت میں کمی زیادتی کے ساتھ نقد  اور ادھار دونوں طرح  فروخت کرنے کا اختیار ہوتا ہے، البتہ اس میں  یہ ضروری ہے کہ معاملہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھار کا،  اور عقد کے وقت کسی ایک قیمت پر فریقین کا اتفاق ہو،  اسی طرح  قسط کی رقم متعین ہو، مدت متعین ہو، اور ایک شرط یہ بھی  ہے کہ کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں اس  میں کسی قسم کا  اضافہ (جرمانہ) وصول نہ کیا جائے ۔ اگر ان میں سے کسی بھی شرط کا خیال نہ رکھا تو یہ معاملہ درست نہیں ہوگا۔

مذکورہ بالا تفصیل کی رو سے  صورت مسئولہ  میں  جو لوگ  گھر خریدنا چاہتے  ہیں، قرض لینے نہیں آتے اور”آسان گھر فنانس“ کمپنی واقعۃً  ان کو ان کا مطلوبہ گھر  خود خرید کر ،اپنے قبضے ميں لے كر    مرابحہ کے ساتھ (یعنی اس کی اصل   قیمت  اور اس کی خریداری پر آنے والے  معروف اخراجات اور اس پر  متعین نفع بیان کرکے) سوال میں ذکر کردہ طریقہ کے مطابق   فروخت کرتی ہے  يعني اس میں درج ذیل شرائط کی رعایت رکھی جاتی ہے کہ :

  1. عقد  کے وقت یہ طے ہوتا ہے کہ   گھر  ادھار میں فروخت کیا جارہا ہے۔
  2. گھر کی قیمت متعین ہوتی ہے، جس میں کمی زیادتی نہیں ہوتی۔
  3. ادھار کی مدت اور ماہانہ قسط متعین ہوتی ہے۔
  4. اور قسط کی تاخیر یا   کسی بھی دوسری وجہ سے کسٹمر  پر جرمانہ نہیں لگایا جاتا،اور نہ ہی کوئی صدقہ وغیرہ وصول کیا جاتا ہے ۔

تو اس طرح  گھر  خریدنا اور فروخت کرنا شرعاً جائز ہے۔

نیز  چوں کہ  کمپنی کا مقصد اور بنیادی  کام  گھر فروخت کرنا ہی  ہے (جیساکہ سوال میں مذکور ہے)  تو    اس کے لیے بہتر طریقہ  یہ ہے کہ”آسان گھر فناس“  کمپنی مختلف علاقوں میں   اپنے اسٹیٹ ایجنٹ    رکھ لے یا ان   سے  رابطہ میں رہے،  جب کوئی کسٹمر ان کے پاس گھر خریدنے کے لیے آئے  تو کسٹمر کے مطلوبہ اوصاف کے مطابق خود گھر تلاش کرکے کسٹمر کو بتادے، اگر وہ گھر کسٹمر  کو پسند آجائے تو اس کو خرید کر     مرابحہ کے ساتھ فروخت کردے ، اور   رقم سوال میں ذکر کردہ طریقہ کے مطابق  قسطوں میں وصول کرلے۔اس  صورت میں اگر کبھی  کسٹمر خود ہی کسی  گھر کی راہ نمائی کردے ،مثلاً  میرے پڑوس میں فلاں مکان فروخت ہورہا ہے، اور وہ مجھے مطلوب ہے، اور اس کے بعد کمپنی  اس کو خرید کر  آگے  فروخت کردے تو  اس میں مضائقہ نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(المرابحة) مصدر رابح وشرعا (بيع ما ملكه)  من العروض ولو بهبة أو إرث أو وصية أو غصب فإنه إذا ثمنه (بما قام عليه وبفضل) مؤنة وإن لم تكن من جنسه كأجر قصار  ونحوه، ثم باعه مرابحة على تلك القيمة جاز مبسوط."

(5 / 132، كتاب البيوع، باب المرابحة والتولية، ط: سعيد)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"وإذا عقد العقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ولنهي النبي - صلى الله عليه وسلم - عن شرطين في بيع وهذا هو تفسير الشرطين في بيع ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد."

(13/ 8 ، كتاب البيوع ،باب البيوع الفاسدة،ط: دار المعرفة)

شرح المجلہ میں ہے:

"البیع مع تأجیل الثمن و تقسیطه صحیح ...  یلزم أن تکون المدة معلومةً في البیع بالتأجیل والتقسیط". 

 (2 /166، المادۃ: 245، 246، ط: رشیدیة)

البحر الرائق میں ہے: 

"لأن للأجل شبها بالمبيع ألا ترى أنه يزاد في الثمن لأجل الأجل، والشبهة في هذا ملحقة بالحقيقة".

 (6/ 114، باب المرابحة والتولیة، ط: سعید) 

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: في ‌بيع ‌العينة) اختلف المشايخ في تفسير العينة التي ورد النهي عنها. قال بعضهم: تفسيرها أن يأتي الرجل المحتاج إلى آخر ويستقرضه عشرة دراهم ولا يرغب المقرض في الإقراض طمعا في فضل لا يناله بالقرض فيقول لا أقرضك، ولكن أبيعك هذا الثوب إن شئت باثني عشر درهما وقيمته في السوق عشرة ليبيعه في السوق بعشرة فيرضى به المستقرض فيبيعه كذلك، فيحصل لرب الثوب درهما وللمشتري قرض عشرة. وقال بعضهم: هي أن يدخلا بينهما ثالثا فيبيع المقرض ثوبه من المستقرض باثني عشر درهما ويسلمه إليه ثم يبيعه المستقرض من الثالث بعشرة ويسلمه إليه ثم يبيعه الثالث من صاحبه وهو المقرض بعشرة ويسلمه إليه، ويأخذ منه العشرة ويدفعها للمستقرض فيحصل للمستقرض عشرة ولصاحب الثوب عليه اثنا عشر درهما، كذا في المحيط، وعن أبي يوسف: العينة جائزة مأجور من عمل بها، كذا في مختار الفتاوى هندية. وقال محمد: هذا البيع في قلبي كأمثال الجبال ذميم اخترعه أكلة الربا. وقال - عليه الصلاة والسلام - «إذا تبايعتم بالعينة واتبعتم أذناب البقر ذللتم وظهر عليكم عدوكم»."

(5/ 273، كتاب البيوع، باب الصرف، مطلب في بيع العينة، ط: سعيد)

وفیه أیضاً:

"فيأتي إلى تاجر فيطلب منه القرض ويطلب التاجر منه الربح ويخاف من الربا فيبيعه التاجر ثوباً يساوي عشرة مثلاً بخمسة عشر نسيئةً فيبيعه هو في السوق بعشرة فيحصل له العشرة ويجب عليه للبائع خمسة عشر إلى أجل أو يقرضه خمسة عشر درهماً ثم يبيعه المقرض ثوباً يساوي عشرة بخمسة عشرة، فيأخذ الدراهم التي أقرضه على أنها ثمن الثوب فيبقى عليه الخمسة عشر قرضاً درر.

ومن صورها: أن يعود الثوب إليه كما إذا اشتراه التاجر في الصورة الأولى من المشتري الثاني ودفع الثمن إليه ليدفعه إلى المشتري الأول، وإنما لم يشتره من المشتري الأول تحرزاً عن شراء ما باع بأقل مما باع قبل نقد الثمن... (قوله: وهو مكروه) أي عند محمد، وبه جزم في الهداية... وقال محمد: هذا البيع في قلبي كأمثال الجبال ذميم اخترعه أكلة الربا، وقد ذمهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «إذا تبايعتم بالعينة واتبعتم أذناب البقر ذللتم وظهر عليكم عدوكم» أي اشتغلتم بالحرث عن الجهاد. وفي رواية: «سلط عليكم شراركم فيدعوا خياركم فلايستجاب لكم». وقيل: إياك والعينة؛ فإنها اللعينة."

(5/ 325، کتاب الکفالة، مطلب بیع العینة، ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144408100021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں