بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر کے لیے جمع شدہ رقم پر زکوۃ کا حکم


سوال

مجھے وراثت میں ایک کروڑ دس لاکھ ملا،ان پیسوں سے میں نے ایک پلاٹ رہائش کی نیت سے خریدا اور 30لاکھ کا کام کرایا ،لیکن گھر بنانے کے لیے مزید پیسے درکار تھے ، نہ ہونے کی وجہ سے وہ پلاٹ ایک کروڑ 97 لاکھ میں فروخت کردیا،7لاکھ بروکر کو فیس کی مد میں دیے،ایک کڑور نوے لاکھ سے میں نے کافی کوشش کی کہ مجھے گھر مل جائے مگر مناسب گھر ابھی تک نہیں مل سکا،تو میں نے وہ پیسے میزان بینک میں رکھوادیے ،میزان بینک اس پر مجھے منافعہ دیتا ہے جو کبھی کم کبھی زیادہ ہوتا ہےمثلاًکبھی لاکھ تو کبھی نوے ہزار،اور پھر ٹیکس بھی کاٹتا ہے،میرے ان پیسوں پر ایک سال گزر چکا ہے،یہ پوچھنا ہے کہ ان پیسوں پر زکوۃ ہوگی یا نہیں ،اور اگر ہوگی تو کتنی ہوگی ،جب کہ یہ پیسے میں نے گھر خریدنے کے واسطے رکھیں ہیں ،اور میری کوشش کے باوجود گھر مجھے نہیں ملا،بلکہ میں اپنی سیلری میں سے بھی کچھ پیسے اس میں جمع کرواچکا ہوں تاکہ پیسےبڑھ جائیں اور گھر آجائے،اس وقت میں کرائے کے گھر میں رہتا ہوں جس کا کرایہ 28500اٹھائیس ہزار پانچ سوہے۔

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی کی ملکیت میں نقد رقم ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زیادہ  ہو تو سال گزرنے کے پراس پرزکوۃ لازم ہوجاتی ہے،لہذا سائل کے پاس موجود مالیت چوں کہ نصاب سے بڑھ کر ہے،اور اس پر سال بھی گذر چکا ہے،اس لیے مذکورہ رقم اگرچہ گھر کے خرید نے کے واسطےجمع کی ہے،لیکن جب تک اس رقم سے مکان نہیں خریدا جاتا تب تک اس رقم پر سالانہ ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کرنا سائل پر لازم ہوگا،مثلاًدو کڑور اگر ملکیت میں ہےتو ڈھائی  فیصدیعنی پانچ لاکھ روپے زکوۃ لازم ہے،باقی زیر نظر مسئلے میں میزان بینک والوں کی طرف سے ملنے والا مذکورہ نفع شرعاً حلال نہیں ہے،اب تک جتنی رقم استعمال کرلی ہے تو اس قدر حلال رقم بلا نیت ثواب غرباء میں تقسیم  کرنا لازم ہے۔

فتاوی شامی میں  ہے:

"(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أمسكهما ولو للنفقة".

(كتاب الزكوة،ج:2،ص:267،ط: سعيد)

وفيه ايضا:

''والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، و إلا فإن علم عين الحرام فلا يحل له، وتصدق به بنية صاحبه''.

(كتاب البيوع ،باب البيع الفاسد،مطلب فيمن ورث مالاً حراماً،ج:5،ص: 99،ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409100373

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں