بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر کے سامنے سرکاری زمین پر باغ بنانا


سوال

ہمارے پاس ایک باغ ہے جو ہمارے گھر کے سامنے ہے، لیکن وہ حکوت کی پراپرٹی ہے،ہماری  ملکیت نہیں ہے (جیسا کہ عام طور پر میدان ہوتے ہیں)، ہم نے اس میں باڑ لگادی ہے، اور سبزیاں اور پھل دار درخت اس میں اُگادیے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ ان پھلوں اور سبزیوں کو فروخت کرنے سے جو آمدن ہمیں حاصل ہوگی، وہ ہمارے لیے حلال ہوگی یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر آپ نے حکومت کی اجازت سے سرکاری زمین پر باغ بنایا ہے،یا حکومت کی طرف سے فائدہ حاصل کرنے کی اجازت ہے تو اس باغ کے درختوں اور سبزیوں کے آپ مالک ہیں، باقی زمین حکومت کی ہے، لہٰذا ایسی صورت میں باغ کے پھلوں اور کھیت کی سبزیوں کو فروخت کرنےسے جو آمدن آپ کو حاصل ہوتی ہےوہ حلال ہے، لیکن اگر آپ نے حکومت کی اجازت کے بغیر سرکاری زمین پر باغ لگایا ہے یا حکومت نے منع کیا ہے، تو یہ ناجائز ہے، اور اس کےپھلوں اور سبزیوں سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی آپ کے لیے حلال نہیں، اسے ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا ضروری ہے، البتہ باغ یا کھیت اُگانے پر بیج وغیرہ اور کاشتکاری کا جو خرچہ آیا ہے، وہ  فصل سے لیا جاسکتا ہے، اس سے  زائد کو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا لازم ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين. متفق عليه."

(كتاب البيوع، باب الغصب والعاریة، ٥/ ٩٦٩، ط: دار الفكر)

ترجمہ: "حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی۔"

شرح معاني الآثار ميں هے:

"عن رافع بن خديج أنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ‌زرع ‌زرعا في أرض قوم بغير إذنهم فليس له من الزرع شيء ويرد عليه نفقته في ذلك."

(‌‌كتاب المزارعة والمساقاة، ‌‌باب من زرع في أرض قوم بغير إذنهم كيف حكمهم في ذلك وما يروى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذلك، ٤/ ١١٧، ط:عالم الکتب)

ترجمہ: "حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی قوم کی زمین میں اُن کی اجازت کے بغیر کھیتی کرے، تو کھیتی میں سے اُس کے لیے کچھ نہیں ہے، اور اُس شخص کو فقط اس کھیتی پر کیا گیا خرچہ ملےگا۔"

المبسوط للسرخسی میں ہے:

 "من غصب أرضا ‌وزرعها ‌فعليه أن يتصدق بالفضل."

(كتاب البيوع، ١٢/ ١٩٤، ط: دارالمعرفة)

بدائع الصنائع  میں ہے: 

"(وأما) صفة الملك الثابت للغاصب في المضمون: فلا خلاف بين أصحابنا في أن الملك الثابت له يظهر في حق نفاذ التصرفات، حتى لو باعه، أو وهبه، أو تصدق به قبل أداء الضمان ينفذ، كما تنفذ هذه التصرفات في المشترى شراء فاسدا، واختلفوا في أنه هل يباح له الانتفاع به بأن يأكله بنفسه، أو يطعمه غيره قبل أداء الضمان، فإذا حصل فيه فضل هل يتصدق بالفضل؟ قال أبو حنيفة - رضي الله عنه - ومحمد - رحمه الله -: لا يحل له الانتفاع، حتى يرضي صاحبه، وإن كان فيه فضل يتصدق بالفضل ... وفي هذا الملك شبهة العدم؛ لأنه يثبت من وقت الغصب بطريق الاستناد، والمستند يظهر من وجه ويقتصر على الحال من وجه، فكان في وجوده من وقت الغصب شبهة العدم، فلا يثبت به الحل والطيب، ولأن الملك من وجه حصل بسبب محظور، أو وقع محظورا بابتدائه، فلا يخلو من خبث، ولأن إباحة الانتفاع قبل الإرضاء يؤدي إلى تسليط السفهاء على أكل أموال الناس بالباطل، وفتح باب الظلم على الظلمة، وهذا لا يجوز."

(کتاب الغصب، ٧/ ١٥٣، ط:سعید)

فتاویٰ  شامی میں ہے:

"(وإذا نقص) العقار (بسكناه وزراعته ضمن النقصان) بالإجماع.

وفي الرد: (قوله ضمن النقصان بالإجماع)؛ لأنه إتلاف ... ثم يأخذ الغاصب رأس ماله وهو البذر وما غرم من النقصان، وما أنفق على الزرع ويتصدق بالفضل عند الإمام ومحمد فلو غصب أرضا فزرعها كرين فأخرجت ثمانية، ولحقه من المؤنة قدر كر ونقصها قدر كر فإنه يأخذ أربعة أكرار ويتصدق بالباقي."

(كتاب الغصب، ٦/ ١٨٧، ط:سعید)

وفيه أيضاً:

"لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته."

(كتاب الغصب، ٦/ ٢٠٠، ط: سعيد)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"سوال:گورنمنٹ نے چک بندی کے زمانہ میں کچھ راستے چھوڑے ان کی جوتائی وغیرہ کرکے غلہ حاصل کرنا کیسا ہے؟ اس کا کیا حکم ہے؟

الجواب حامدا ومصلیاً:جو زمین کسان کی نہیں ، نہ کوئی معاملہ اجارہ یا بٹائی کا مالک سے کیا ہو، اس کو جوتنا اور غلہ حاصل کرنا اس کے لیے جائز نہیں ، وہ گورنمنٹ کی ملک ہے تو اس کی اجازت سے درست ہے۔"

(کتاب المزارعۃ، سرکاری زمین میں کھیتی کرنا، ۱۷/ ۱۹۶، ط:ادارہ الفاروق کراچی)

امدادالفتاویٰ میں ہے :

"سوال (۱۶۳۱) : قدیم ۳/ ۳۵- ایک سڑک سرکار کی جانب سے نکالی گئی، اور اس کا معاوضہ زمینداروں کو نہیں دیا گیا، اور زمینداروں کو معاوضہ نہ دینے کی یہ وجہ بیان کی گئی کہ سڑک پبلک یعنی عوام کی ہے، قاعدہ کی رو سے معاوضہ نہیں مِل سکتا اور سڑک کے کنارے کنارے درخت لگانے کی اجازت عام لوگوں کو بایں شرط دی جاتی ہے کہ درخت لگانے والا پھل کا مالک رہے اوردرخت خشک ہوجانے کے بعد لکڑی کاٹ کر لے جاسکتا ہے اور درخت شاداب اور کھڑا سرکار کا ہے،آیا درخت لگانے والا اس کے پھل کو بطور ملکیت خود فروخت کر سکتا ہے شرعاً جائز ہے یا نہیں ، بینوا توجروا؟

الجواب: استیلاء سرکار سے ا س سڑک کی زمین اصلی مالک کی ملک سے خارج ہو گئی، جب باجازت سرکار کسی نے اس میں درخت لگایا، اس کا پھل بھی مملوک اس ہی لگانے والے شخص کا ہے، اس لیے اس پھل کا فروخت کرنا جائز ہے، جب کہ پھل نمودار ہوگیا ہو، اور کام میں لانے کے قابل ہوگیا ہو۔"

(کتاب البیوع، ۳ /۳۵، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں