بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

گھرکا خرچ مشترک ہونے کی وجہ سے ہربھائی دوسرے کی کمائی میں حصہ دار نہیں


سوال

 ایک گھرانہ ہے جس میں 6 بھائی اکٹھے رہتے ہیں، ان میں سے کچھ کی آمدنی زیادہ ہے کچھ کی ان سے کم ،لیکن ان کی ترتیب یہ ہے کہ جو کماتے ہیں سب اپنے بڑے بھائی کو دیتے ہیں اور وہ گھر کا سارا نظام چلاتا ہے اور اس میں ایک بھائی ہے جو ویلڈنگ کا کام کرتا ہے اس نے ویلڈنگ کی دکان کے لیے 2 دکانیں لی ہیں،  ایک دکان جو معمولی سی جگہ پر ہے، مشترکہ زمین پر ہے یعنی ( ان کے بھائیوں کی، جس میں اس کا حصہ بھی ہے) اور دوسری دکان کرائے کی ہے، جس کا کرایہ ویلڈر بھائی کے ذمہ ہے اور یہ دکان ویلڈر بھائی نے اپنے ذاتی مال سے بنائی ہے، یہ ویلڈر بھائی گھر میں سب سے زیادہ خرچہ دیتا ہے اور ان کی فیملی بھی باقی بھائیوں سے کم ہے، لیکن اپنی ساری آمدنی نہیں دیتا، بلکہ اپنی ذات اور اہلیہ کے لیے بھی کچھ رقم بچاتا ہے، اور ان کے باقی بھائیوں کا یہ کہنا کہ تمہارا اس طرح اپنے اور اہلیہ کے لیے پیسے بچانا شرعی طور پر نا جائز ہے، اور ویلڈر بھائی کا یہ کہنا کہ میں تم سب میں سے زیادہ کماتا ہو ں اور میری فیملی بھی چھوٹی ہے اس لیے میں ساری آمدن نہیں دوں گا،سوال ، کیا ویلڈر بھائی کا اس طرح رقم بچانا جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگرپہلے سےتمام بھائیوں میں ایساکوئی معاہدہ ہواہوکہ تمام بھائی اپنی پوری آمدنی مشترکہ شمارکرتےہوئے ایک بھائی کے پاس جمع کریں گے اورپھراسی سے مشترکہ ملکیت بڑھائیں گے توحسب ِ معاہدہ عمل کرنا ضروری ہے ، لیکن اگرایسی کوئی بات طے نہیں ہوئی تھی توپھرویلڈربھائی اپنی آمدنی سے اپنے لیے رقم بچاتاہے توجائز ہے۔

            تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

 "لأن شركة المفاوضة لها شروط منها العقد ‌بلفظ ‌المفاوضة فإن لم يذكر لفظها فلا بد من أن يذكر تمام معناها بأن يقول أحدهما للآخر وهما حران بالغان مسلمان أو ذميان شاركتك في جميع ما أملك من نقد وقدر ."

(العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية، كتاب الشركة ، شرکة العنان 1/ 93 ط: دارالمعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101988

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں