بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر کے قریب ہونے کی غرض سے دور کی ملازمت چھوڑنا


سوال

میں آرمی میں سولہ سال سے ملازمت کر رہا ہوں، گزشتہ دو سال میں میرے بھائی اور والدمحترم کا انتقال ہو گیا، بھائی کی بیوہ،  ان کے بچے بھی میرے زیرِ کفالت ہیں، میں خود بھی اب ذہنی طور پر بہت تکلیف میں رہتا ہوں، اور آرمی میں افسران کا رویہ مزید ذہنی تکلیف کا باعث بن رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ ملازمت چھوڑ کر گھر جاوں اور وہاں کوئی کام کروں، جس کے ساتھ گھر والوں کا خیال بھی رکھ سکوں؛ کیونکہ گھر پر اب کوئی مرد نہیں رہا۔

کیا ایسے لگے ہوئے روزگار کو بتائی ہوئی وجہ سے چھوڑنا جائز ہوگا؟  اور اللّٰہ کی ناراضگی کا سبب تو نا ہوگا ؟بہت اذیت میں ہوں . آپ رہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ تفصیل کی روشنی میں آپ کا اپنی ملازمت چھوڑ کر گھر جاکر روزگار طلب کرنا جائز بلکہ مستحسن ہے کیونکہ اس میں آپ کی نیت اچھی طرح  صلہ رحمی کی بھی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله وصلة الرحم واجبة) نقل القرطبي في تفسيره اتفاق الأمة على وجوب صلتها وحرمة قطعها للأدلة القطعية من الكتاب والسنة على ذلك قال في تبيين المحارم: واختلفوا في الرحم التي يجب صلتها قال قوم: هي قرابة كل ذي رحم محرم وقال آخرون. كل قريب محرما كان أو غيره اهـ والثاني ظاهر إطلاق المتن قال النووي في شرح مسلم: وهو الصواب واستدل عليه بالأحاديث. نعم تتفاوت درجاتها ففي الوالدين أشد من المحارم، وفيهم أشد من بقية الأرحام وفي الأحاديث إشارة إلى ذلك كما بينه في تبيين المحارم."

(کتاب الحظر والاباحۃ، فصل فی البیع، ۶ ؍ ۴۱۱، ط : سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100972

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں