بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غار حرا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کی کیفیت/عبد المطلب کی بیویوں کی تعداد اور ان کا نام


سوال

1:غارِ حرا میں نبی کریمﷺ  جو عبادت  کرتے تھے اُس کا کیا نام تھا ؟ اگر وہ ابراہیم علیہ السلام کے دین کی عبادت کرتے تھے، تو دینِ ابراہیمی کا کیا نام تھا ؟

2: حضورﷺ کے دادا عبدالمطلب کی بیویوں کی تعداد اور اسماء مبارکہ کیا تھے ؟

جواب

بعض روایات سے یہ بات واضح ہے کہ بعثت سے قبل رسول اللہ  ﷺ غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے اور کئی دن وہاں تنہائی اور خلوت میں گزاراکرتے تھے،  اب وہ عبادت کس قسم کی تھی، اس کی کیفیت کی تھی!  اس  میں علماء کے مختلف اقوال ہیں:

1:  حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین کے مطابق عبادت اور عمل  کرتے تھے۔

2:حضرت موسی علیہ السلام  کے دین کے مطابق عمل کرتے تھے۔

3: حضرت عیسی علیہ السلام کے دین کے مطابق  عمل کرتے تھے۔

4: حضرت نوح علیہ السلام کی شریعت کے مطابق عمل کرتے تھے۔

5: حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت کے مطابق عمل کرتے تھے۔

6: ماقبل کی کسی شریعت  پر عمل کرتے تھے۔

7: آپ اپنے اجتہاد اور رائے سے عبادت کرتے تھے۔

8: بعض نے لکھا ہے کہ غارِ حرا میں آپ ﷺ کی عبادت غور و فکر اور عبرت پذیری پر مشتمل تھی۔

غرض نبوت سے قبل عبادت تو احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے، لیکن عبادت کی کیفیت کیا تھی، اس کی وضاحت احادیث میں  واضح  طور پر موجود نہیں ہے ،تاہم صحیح اور مختار قول یہ ہے کہ آپ  کو کشف صادق اورالہام صحیح سے جو ظاہر اور منکشف ہوتا کہ یہ امر حضرت ابراہیم علیہ السلام یا  کسی اور  نبی کی شریعت سے ہے، اس کےمطابق عمل فرماتے تھے۔

2:رسول اللہ ﷺ کے جد امجد عبد المطلب کی چھ بیویاں تھیں، جن کے نام یہ ہے:1:فاطمہ بنت عمروبن عائذ۔2:ہالہ بنت اہیب بن عبد مناف۔3:نتیلہ بنت جناب بن کلیب۔4:صفیہ بنت جندب بن حجیر۔5:لبنی بنت ہاجر بن عبد مناف۔ 6:ممنعہ بنت عمرو بن مالک۔

عمدۃ القاری میں ہے :

"اختلف فيه على ثمانية أقوال أحدها أنه كان يتعبد بشريعة إبراهيم الثاني بشريعة موسى الثالث بشريعة عيسى الرابع بشريعة نوح حكاه الآمدي الخامس بشريعة آدم حكي عن ابن برهان السادس أنه كان يتعبد بشريعة من قبله من غير تعيين السابع أن جميع الشرائع شرع له حكاه بعض شراح المحصول من المالكية الثامن الوقف في ذلك وهو مذهب أبي المعالي الإمام واختاره الآمدي فإن قلت قد قال الله تعالى {ثم أوحينا إليك أن اتبع ملة إبراهيم} قلت المراد في توحيد الله وصفاته أو المراد اتباعه في المناسك كما علم جبريل عليه السلام إبراهيم عليه السلام الخامس ما قيل ما كان صفة تعبده أجيب بأن ذلك كان بالتفكر والاعتبار كاعتبار أبيه إبراهيم عليه الصلاة والسلام".

(کتاب الایمان،ج:1،ص:61،داراحیاء التراث العربی)

الدر مع الرد  میں ہے:

"هل كان قبل البعثة متعبدا بشرع أحد؟ المختار عندنا لا، بل كان يعمل بما ظهر له من الكشف الصادق من شريعة إبراهيم وغيره. وصح تعبده في حراء بحر (قوله: المختار عندنا لا) نسبه في التقرير الأكملي إلى محققي أصحابنا قال: لأنه - عليه الصلاة والسلام - قبل الرسالة في مقام النبوة لم يكن من أمة نبي قط إلخ، وعزاه في النهر أيضا إلى الجمهور واختار المحقق ابن الهمام في التحرير ‌أنه ‌كان ‌متعبدا ‌بما ‌ثبت أنه شرع يعني لا على الخصوص وليس هو من قومهم، وقدمنا تمامه في أوائل كتاب الطهارة."

(کتاب الصلاۃ،ج:1، ص:358، ط:سعید)

اسد الغابۃ فی معرفۃ الصاحبۃ میں ہے:

"‌‌ذكر أعمامه وعماته صلى الله عليه وسلم كان للنبي صلى الله عليه وسلم من الأعمام عشرة، ومن العمات خمس فالأعمام: الزبير، وأبو طالب واسمه عبد مناف،...وأم هؤلاء جميعا فاطمة بنت عمرو بن عائذ بن عمران بن مخزوم، وهم أشقاء عبد الله بن عبد المطلب،وحمزة بن عبد المطلب أسد الله، وأسد رسوله صلى الله عليه وسلم، والمقوم، وحجل واسمه المغيرة وصفية ... وأمهم هالة بنت أهيب بن عبد مناف بن زهرة، وهي ابنة عم آمنة بنت وهب بن عبد مناف، أم رسول الله صلى الله عليه وسلم،والعباس بن عبد المطلب، وأمه نتيلة بنت جناب بن كليب بن مالك...والحارث بن عبد المطلب، وكان أكبر ولده، وبه كان يكنى، وأمه صفية بنت جندب بن حجير ابن زباب...وعبد العزى بن عبد المطلب، وهو أبو لهب، وكان جوادا، كناه أبوه بذلك لحسنه، وأمه لبني بنت هاجر بن عبد مناف بن ضاطر بن حبشية بن سلول الخزاعية...والغيداق بن عبد المطلب، واسمه نوفل، وأمه: ممنعة بنت عمرو بن مالك بن مؤمل بن سويد بن سعد بن مشنوء بن عبد بن حبتر."

(ذكر أعمامه وعماته  صلى الله عليه وسلم، ج:1، ص:39، ط:دار الفکر)

سیرتِ مصطفی میں ہے:

"مختار قول یہ ہے کہ آپ  کو کشف صادق اورالہام صحیح سے جو ظاہر اور منکشف ہوتا کہ یہ امر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور کسی نبی کی شریعت سے ہے، اس کےمطابق عمل فرماتے ، جیسا کہ بعض روایات میں بجائے "فیتنحنث" کے"فیتحنف" کا لفظ آیاہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ ابراہیم حنیف کے طریقہ پر چلتے تھے، یہ لفظ اس کی تائید کرتاہے کہ آپ ملت حنیفیہ کے مطابق اپنے کشف اور الہام سے عمل کرتے تھے۔"

(ج:1، ص:128، ط:کتب خانہ مظہری)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100851

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں