میری گورنمنٹ جاب ہے،تنخواہ 44000 ہے،جاب میں حرام کی کمائی کے بہت سےمواقع ہیں،اگر جاب پر جاؤں گا تو ہوسکتا ہے،میں حرام کمائی میں لگ جاؤں، اگر میں جاب پر نہ جاؤ گھر پر بیٹھ کر تنخواہ لو ں تو تنخواہ حلال ہوگی یاحرام؟
صورت ِمسئولہ میں اگر جاب دہندگان کے طرف سے معاہدہ وقت کی بنیاد پر ہوا ہو کہ اتنا وقت دینا ہے، تو ایسی صورت میں طے شدہ وقت دینا ضروری ہے، اگر بالکل وقت ہی نہ دیا جائے، تو تنخواہ لینا جائز نہیں ہوگا،اوراگر مکمل وقت نہ دیا جائے تو جتنا وقت دیا ہے، صرف اسی کے بدلے میں تنخواہ لینا جائز ہوگا، اور اگر معاہدہ کسی معلوم کام کے کرنے پر ہوا ہےتو ایسی صورت میں وہ کا م پورا کئے بغیر تنخواہ لینا جائز نہیں ہوگا۔ مذکورہ عذر کی وجہ سے گھر بیٹھے تنخواہ لینا شرعا معتبر نہیں، پورا کام کرنے اور اس دوران حرام کام سے بچنا ضروری ہے، اگر ممکن ہو تو دوسری جگہ تلاش کی جائے۔
النتف فی الفتاوی للسغدی میں ہے:
"والاجارة لاتخلو من وجهين اما ان تقع على وقت معلوماو على عمل معلوم فان وقعت على عمل معلوم فلا تجب الاجرة الا باتمام العمل اذا كان العمل مما لا يصلح اوله إلا بآخره وان كان يصلح اوله دون آخره فتجب الاجرة بمقدار ما عمل واذا وقعت على وقت معلوم فتجب الاجرة بمضي الوقت ان هو استعمله او لم يستعمله وبمقدار ما مضى من الوقت تجب الاجرة. "
(کتاب الاجارۃ، 559/2،ط:مؤسسة الرسالة - بيروت)
ہندیہ میں ہے:
" وإن لم يبين مقدار العمل لكنه ذكر لذلك وقتا فقال استأجرتك لتخبز لي اليوم إلى الليل بدرهم جاز أيضا. "
(کتاب الاجارۃ ،الباب السابع فی إجارۃ المستأجر،425/4، ط:المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)
احكام القرآن للجصاص ميں ہے:
"وقوله تعالى:"وتعاونوا على البر والتقوى" يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان طاعة لله تعالى; لأن البر هو طاعات الله. وقوله تعالى:"ولا تعاونوا على الأثم والعدوان "نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."
(سورۃ المائدۃ:381/2،الآیۃ:2،ط:دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509100315
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن